اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

جمعہ، 19 مئی، 2023

ناصر کاظمی کی غزل ۔ تو ہے یا تیرا سایا ہے

تو ہے یا تیرا سایا ہے

بھیس جدائی نے بدلا ہے


دل کی حویلی پر مدت سے

خاموشی کا قفل پڑا ہے


چیخ رہے ہیں خالی کمرے

شام سے کتنی تیز ہوا ہے


دروازے سر پھوڑ رہے ہیں

کون اس گھر کو چھوڑ گیا ہے


تنہائی کو کیسے چھوڑوں

برسوں میں ایک یار ملا ہے


رات اندھیری ناو ساتھی

رستے میں دریا پڑتا ہے


ہچکی تھمتی ہی نہیں ناصر

آج کسی نے یاد کیا ہے


احمد فراز کی خوبصورت غزل شاعری ۔ چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے

Chalo Woh Ishq Nahi . Ahmad Faraz Ghazal 

چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے

پہ کیا کریں ہمیں‌ اک دوسرے کی عادت ہے

تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ کر ضائع

میں آئینہ ہوں‌ مجھے ٹوٹنے کی عادت ہے

میں کیا کہوں کہ مجھے صبر کیوں نہیں آتا

میں کیا کروں کہ تجھے دیکھنے کی عادت ہے

ترے نصیب میں اے دل ! سدا کی محرومی

نہ وہ سخی، نہ تجھے مانگنے کی عادت ہے

وصال میں‌ بھی وہی ہے فراق کا عالم

کہ اسکو نیند مجھے رت جگے کی عادت ہے

یہ مشکلیں ہیں تو پھر کیسے راستے طے ہوں

میں ناصبور اسے سوچنے کی عادت ہے

یہ خود اذیتی کب تک فراز تو بھی اسے

نہ یاد کر کہ جسے بھولنے کی عادت ہے

بدھ، 17 مئی، 2023

محبت اب نہیں ہوگی ۔ منیر نیازی کی شاعری

Mohabbat Ab Nahi Hogi . Munir Niazi

ستارے جو چمکتے ہیں کسی کی چشم حیراں میں

ملاقاتیں جو ہوتی ہیں جمالِ ابرو باراں میں

یہ نا آباد وقتوں میں دلِ ناشاد میں ہوگی

محبت اب نہیں ہو گی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی

گزر جائٰیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہو گی

منیر نیازی کی شاعری

بدھ، 17 مارچ، 2021

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں / آحمد فراز رومانوی غزل


suna hai log use aankh bhar ke dekhte hain - Ahmad Faraz Love Ghazal

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں

یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے ربط ھے اس کو خراب حالوں سے

سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے دن میں اُسے تتلیاں ستاتی ہیں

سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اُس کے بدن کی تراش ایسی ہے

کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اُسے بھی ہے شعر و شاعری سے شغف

سو ہم بھی معجزے اپنے ھُنر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے درد کی گاہگ ہے چشم ناز اُس کی

سو ہم بھی اُس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے حشر ہیں اُس کی غزال سی آنکھیں

سُنا ہے اُس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے اُس کی سیاہ چشمگیں قیامت ہے

سو اس کو سُرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات اُسے چاند تکتا رہتا ہے

ستارے بامِ فلک سے اُتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اُس کی

سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اُس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں

سو ہم بہار پر الزام دھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اُس کے شبستاں سے مُتصل ہے بہشت

مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اُس کی

جو سادہ دل ہیں اُسے بن سنور کے دیکھتے ہیں

سنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ اِمکاں میں

پلنگ زاویے اُس کی کمر کے دیکھتے ہیں

رکے تو گردشیں اُس کا طواف کرتی ہیں

چلے تو اُس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

بس اِک نگاہ سے لُٹتا ہے قافلہ دل کا

سو راہروانِ تمنّا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں

اب اُس کے شہر میں ٹھہریں یا کُوچ کر جائیں

فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

Faraz Ahmad Faraz

منگل، 9 مارچ، 2021

چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے / احمد فراز غزل Chalo Woh Ishq Nahi Chahne Ki Aadat Hai - Ahmad Faraz Ghazal

چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے / احمد فراز غزل Chalo Woh Ishq Nahi Chahne Ki Aadat Hai - Ahmad Faraz Ghazal - Ahmad Faraz Shayari

چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے

یہ کیا کریں کہ ہمیں ڈوبنے کی عادت ہے


تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ کر ضائع

میں آئینہ ہو مجھے ٹوٹنے کی عادت ہے


میں کیاکہوں کہ مجھے صبر کیوں نہیں آتا

میں کیا کروں کہ تجھے دیکھنے کی عادت ہے


تیرے نصیب میں اے دل صدا کی محرومی

نہ وہ سخی نہ تجھے مانگنے کی عادت ہے


وِصال میں بھی وہی ہے فِراق کا عالم

کہ سکو نیند مجھے رَت جَگے کی عادت ہے


یہ مشکلیں تو پھر کیسے راستے طے ہوں

میں نا صبُور اسے سوچنے کی عادت ہے


یہ خود اذیتی کب تک فراز تو بھی اسے

نہ یاد کر کہ جسے بھولنے کی عادت ہے

احمد فراز

تری امید ترا انتظار جب سے ہے - فیض احمد فیض غزل - Teri Umeed Tera Intizar Jab Se Hai - Faiz Ahmad Faiz Ghazal

 Teri Umeed Tera Intizar Jab Se Hai - Faiz Ahmad Faiz Ghazal 


تری امید ترا انتظار جب سے ہے

نہ شب کو دن سے شکایت ، نہ دن کو شب سے ہے


کسی کا درد ہو کرتے ہیں تیرے نام رقم

گلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے


ہوا ہے جب سے دلِ ناصبُور بے قابو

کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے


اگر شرر ہے تو بھڑکے،جو پھول ہے تو کھلے

طرح طرح کی طلب، تیرے رنگِ لب سے ہے


کہاں گئے    شبِ فرقت کے جاگنےوالے

ستارہ ءِ سحری    ہم کلام کب سے ہے


فیض احمد فیض

چلو اب ایسا کرتے ہیں ستارے بانٹ لیتے ہیں - فیض احمد فیض غزل

Chalo Ab Aisa Karte Hain Sitare Bant Lete Hain - Faiz Ahmad Faiz Ghazal 


چلو اب ایسا کرتے ہیں ستارے بانٹ لیتے ہیں

ضرورت کے مطابق ہم سہارے بانٹ لیتے ہیں

محبت کرنے والوں کی تجارت بھی انوکھی ہے

منافع چھوڑ دیتے ہیں خسارے بانٹ لیتے ہیں

اگر ملنا نہیں ممکن تو لہروں پر قدم رکھ کر

ابھی دریا ئے الفت کے کنارے بانٹ لیتے ہیں

میری جھولی میں جتنےبھی وفا کے پھول ہیں ان کو

اکھٹے بیٹھ کر سارے کے سارے بانٹ لیتے ہیں

محبت کے علاوہ پاس اپنے کچھ نہیں ہے فیض

اسی دولت کو ہم قسمت کے مارے بانٹ لیتے ہیں

اپنی محبت کے افسانے کب تک راز بناؤ گے - احمد فراز شاعری - احمد فراز غزل - Apni Mohabbat Ke Afsane

اپنی محبت کے افسانے کب تک راز بناؤ گے

رسوائی سے ڈرنے والو ، بات تمہیں پھیلاؤ گے

اس کا کیا ہے تم نہ سہی تو چاہنے والے اور بہت

ترکِ محبت کرنے والو ، تم تنہا رہ جاؤ گے

ہجر کے ماروں کی خوش فہمی ، جاگ رہے ہیں پہروں سے

جیسے یوں شب کٹ جائے گی ، جیسے تم آ جاؤ گے

زخمِ تمنا کا بھر جانا گویا جان سے جانا ہے

اس کا بھلانا سہل نہیں ہے ، خود کو بھی یاد آؤ گے

چھوڑ عہدِ وفا کی باتیں ، کیوں جھوٹے اِقرار کریں

کل میں بھی شرمندہ ہوں گا ، کل تم بھی پچھتاؤ گے

رہنے دو یہ پَند و نصیحت ، ہم بھی فراز سے واقِف ہیں

جس نے خود سو زخم سہے ہوں ، اس کو کیا سمجھاؤ گے

احمد فراز