اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

اتوار، 28 اپریل، 2024

Sarakti Jaeye hai Rukh Se Naqab Ahasta Ahasta - Ameer Meenai Ghazal

 

سرکتی جائے ہے رُخ سے نقاب آہستہ آہستہ

نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ

جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ

حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ

شبِ فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو

کہیں فرصت میں کر لینا حساب آہستہ آہستہ

سوالِ وصل پر ان کو خدا کا خوف ہے اتنا

دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ

ہمارے اور تمہارے پیار میں بس فرق ہے اتنا

اِدھر تو جلدی جلدی ہے اُدھر آہستہ آہستہ

وہ بے دردی سے سر کاٹے امیر اور میں کہوں ان سے

حضور آہستہ آہستہ جناب آہستہ آہستہ

ہفتہ، 13 اپریل، 2024

Lam Yati Nazeero Kafi Nazarin Misl E To Na Shud Paida Jana . Ahmad Raza Khan Bareelvi


لم‌ یات نظیرک فی نظرٍ مثل تو نہ شد پیدا جانا 

جگ راج کو تاج تورے سر سو ہے تجھ کو شہ دوسرا جانا 

البحر علیٰ و الموج طغیٰ من بیکس و طوفاں ہوش ربا 

منجدھار میں ہوں بگڑی ہے ہوا موری نیا پار لگا جانا 

یا شمس نظرت الیٰ لیلی چو بہ طیبہ رسی عرضے بکنی 

توری جوت کی جھل جھل جگ میں رچی مری شب نے نہ دن ہونا جانا 

لک بدرٌ فی‌ الوجہ الاجمل خط ہالۂ‌ مہ زلف ابر اجل 

تورے چندن چندر پرو کنڈل رحمت کی بھرن برسا جانا 

انا فی عطش و سخاک اتم اے گیسوئے پاک اے ابر کرم 

برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند ادھر بھی گرا جانا 

یا قافلتی زیدی اجلک رحمے بر حسرت تشنہ لبک 

مورا جیرا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا 

واھا لسویعاتٍ ذھبت آں عہد حضور بارگہ ات 

جب یاد آوت موہے کر نہ پرت دردا وہ مدینہ کا جانا 

القلب شحٍ و الہم شجوں دلزار چناں جاں زیر چنوں 

پت اپنی بپت میں کا سے کہوں میرا کون ہے تیرے سوا جانا 

الروح فداک فزد حرقا یک شعلہ دگر برزن عشقا 

مورا تن من دھن سب پھونک دیا یہ جاں بھی پیارے جلا جانا 

بس خامۂ خام نوائے رضاؔ نہ یہ طرز مری نہ یہ رنگ مرا 

ارشاد‌ احبا ناطق تھا ناچار اس راہ پڑا جانا

احمد رضا خاں بریلوی 

Niyat E Shauq Bhar Na Jaye Kahin . Nasir Kazmi Ghazal

Nasir Kazmi Ki Shayari

 نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں

تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں

آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں

نہ ملا کر اداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں

آرزو ہے کہ تو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں

جی جلاتا ہوں اور سوچتا ہوں
رائیگاں یہ ہنر نہ جائے کہیں

آو کچھ دیر رو ہی لیں ناصر
پھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں

naye kapray badal kar jaon kahan . NASIR KAZMI GHAZAL

naye kapray badal kar jaon kahan . NASIR KAZMI GHAZAL  

نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے

جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی
ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لیے

وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے

اب شہر میں اُس کا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جانِ غزل ہی نہیں
ایوانِ غزل میں الفاظ کے گلدان سجاؤں کس کے لیے

مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا
ان خالی کمروں میں ناصر اب شمع جلاؤں کس کے لیے

غزل ناصر کاظمی

Dil Se Teri Nigah Jigar Tak Utar Gayi. Mirza Ghalib Ghazal

دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی ۔ مرزا غالب غزل

دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی

دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی

شق ہو گیا ہے سینہ، خوشا لذّتِ فراغ

تکلیفِ پردہ داریِ زخمِ جگر گئی

وہ بادۂ شبانہ کی سر مستیاں کہاں

اٹھیے بس اب کہ لذّتِ خوابِ سحر گئی

اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں

بارے اب اے ہوا! ہوسِ بال و پر گئی

دیکھو تو دل فریبـئ اندازِ نقشِ پا

موجِ خرامِ یار بھی کیا گل کتر گئی

ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی

اب آبروئے شیوہ اہلِ نظر گئی

نظّارے نے بھی کام کِیا واں نقاب کا

مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی

فردا و دی کا تفرِقہ یک بار مٹ گیا

کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی

مارا زمانے نے اسدؔاللہ خاں تمہیں

وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی

مرزا اسد اللہ خان غالب غزل


Koi Umeed Bar Nahi Aati . Mirza Ghalib Ghazal

کوئی امید بھر نہیں آتی ۔ مرزا غالب غزل

کوئی امید  بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

موت کا ایک دن معین ھے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی

اب کسی بات پر نہیں آتی

جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد

پر طبیعت ادھر نہیں آتی

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں

ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں

میری آواز گر نہیں آتی

داغِ دل گر نظر نہیں آتا

بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

کچھ ہماری خبر نہیں آتی

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی

موت آتی ہے پر نہیں آتی

کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب

شرم تم کو مگر نہیں آتی

مرزا اسد اللہ خان غالب کی غزل 

بدھ، 22 نومبر، 2023

گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ - ناصر کاظمی کی غزل

 غزل ناصر کاظمی

گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ

عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ


بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر

ستارۂ شام بن کے آیا برنگِ خوابِ سحر گیا وہ


خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم نظر اُسے ڈھونڈتی ہے ہردم

وہ بوئے گل تھا کہ نغمۂ جاں مرے تو دل میں اتر گیا وہ


نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا

یونہی ذرا کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ


کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی بدل چلا دورِ آسماں بھی

جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ


بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ہزار رستے ہیں اہلِ دل کے

یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ


شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بلا رہا ہوں

جو قافلہ میرا ہمسفر تھا مثالِ گردِ سفر گیا وہ


مرا تو خوں ہو گیا ہے پانی ستمگروں کی پلک نہ بھیگی

جو نالہ اٹھا تھا رات دِل سے نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ


وہ میکدے کو جگانے والا وہ رات کی نیند اڑانے والا

یہ آج کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ


وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا

سدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ


وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تو نے منزلوں کا

تری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ


وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر

تری گلی تک تو ہم نے دیکھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ


کچھ یادگارِ شہرِ ستم گر ہی لے چلیں - ناصر کاظمی کی غزل


 غزل ناصر کاظمی

کچھ یادگارِ شہرِ ستم گر ہی لے چلیں

آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں


یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر

سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں


رنجِ سفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو

تھوڑی سی خاکِ کوچۂ دلبر ہی چلیں


یہ کہہ کے چھیٹرتی ہے ہمیں دل گرفتگی

گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں


اس شہرِ بے چراغ میں جائے گی تو کہاں

آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں

ناصر کاظمی


کل جنہیں زندگی تھی راس بہت - ناصر کاظمی کی غزل

Kal jinhain Zindagi Thi Raas Buhat . Nasir Kazmi Ghazal 

کل جنہیں زندگی تھی راس بہت

آج دیکھا انہیں‌اداس بہت


رفتگاں کا نشاں نہیں ملتا

اُگ رہی ہے زمیں پہ گھاس بہت


کیوں نہ روؤں تری جدائی میں

دن گزرتے ہیں تیرے پاس بہت


چھاؤں مل جائے دامنِ گل کی

ہے غریبی میں یہ لباس بہت


وادیِ دل میں پاؤں دیکھ کے رکھ

ہے یہاں درد کی اُگاس بہت


سوکھے پتوں کو دیکھ کر ناصر

یاد آتی ہے گل کی باس بہت

ناصر کاظمی


جمعہ، 19 مئی، 2023

ناصر کاظمی کی غزل ۔ تو ہے یا تیرا سایا ہے

تو ہے یا تیرا سایا ہے

بھیس جدائی نے بدلا ہے


دل کی حویلی پر مدت سے

خاموشی کا قفل پڑا ہے


چیخ رہے ہیں خالی کمرے

شام سے کتنی تیز ہوا ہے


دروازے سر پھوڑ رہے ہیں

کون اس گھر کو چھوڑ گیا ہے


تنہائی کو کیسے چھوڑوں

برسوں میں ایک یار ملا ہے


رات اندھیری ناو ساتھی

رستے میں دریا پڑتا ہے


ہچکی تھمتی ہی نہیں ناصر

آج کسی نے یاد کیا ہے