اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

جمعرات، 11 اپریل، 2013

مولانا حسرت موہانی


 مولانا حسرت موہانی





توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے

میرے عذر ِ جرم پر مطلق نہ کیجیے التفات
بلکہ پہلے سے بھی بڑھ کر کج ادا ہو جائیے

خاطر ِ محروم کو کو کر دیجیے محو ِ الم!
درپے ایذائے جانِ مبتلا ہو جائیے

راہ میں ملیے کبھی مجھ سے تو از راہِ ستم
ہونٹ اپنا کاٹ کر فورا" جدا ہو جائیے

گر نگاہِ شوق کو محو ِ تماشا دیکھئیے
قہر کی نظروں سے مصروف سزا ہو جائیے

میری تحریر ِ ندامت کا نہ دیجیے کچھ جواب
دیکھ لیجیے اور تغافل آشنا ہو جائیے

مجھ سے تنہائی میں گر ملیے تو دیجیے گالیاں!
اور بزم غیر میں جانِ حیا ہو جائیے

ہاں یہی میری وفائے بے اثر کی ہے سزا
آپ کچھ اسے سے بھی بڑھ کر پر خفا ہو جائیے

جی میں آتا ہے کہ اس شوخ تغافل کیش سے
اب نہ ملیے پھر کبھی اور بے وفا ہو جائیے

کاوش ِ دردِ جگر کی لذّتوں کو بھول کر
مائل ِ آرام و مشتاق ِ شفا ہو جائیے

ایک بھی ارماں نہ رہ جائے دل مایوس میں
یعنی آکر بے نیاز ِ مدّعا ہو جائیے

بھول کر بھی اس ستم پرور کی پھر آئے نہ یاد
اس قدر بیگانہء عہدِ وفا ہو جائیے

ہائے ری بے اختیاری یہ تو سب کچھ ہو مگر
اس سراپا ناز سے کیونکر خفا ہو جائیے

چاہتا ہے مجھ کو تو بھولے نہ بھولوں میں تجھے
تیرے اس طرز ِ تغافل کے فدا ہو جائیے

کشمکش ہائے الم سے اب یہ حسٓرت دل میں ہے
چھٹ کے ان جھگڑوں سے مہمانِ قضا ہو جائیے

شاعر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا حسرت موہانی

بدھ، 10 اپریل، 2013

امجد اسلام امجد Amjad Isalam Amjad



امجد اسلام امجد


جو کچھ دیکھا جو سوچا ہے وہی تحریر کر جائیں!
جو کاغذ اپنے حصے کا ہے وہ کاغذ تو بھر جائیں!

نشے میں نیند کے تارے بھی اک دوجے پر گرتے ہیں
تھکن رستوں کی کہتی ہے چلو اب اپنے گھر جائیں

کچھ ایسی بے حسی کی دھند سی پھیلی ہے آنکھوں میں
ہماری صورتیں دیکھیں تو آئینے بھی ڈر جائیں

نہ ہمت ہے غنیمِ وقت سے آنکھیں ملانے کی
نہ دل میں حوصلہ اتنا کہ مٹی میں اتر جائیں

گُلِ امید کی صورت ترے باغوں میں رہتے ہیں
کوئی موسم ہمیں بھی دے کہ اپنی بات کر جائیں

دیارِ دشت میں ریگِ رواں جن کو بناتی ہے
بتا اے منزلِ ہستی کہ وہ رستے کدھر جائیں

تو کیا اے قاسمِ اشیاء یہی آنکھوں کی قسمت ہے
اگر خوابوں سے خالی ہوں تو پچھتاووں سے بھر جائیں

جو بخشش میں ملے امجد تو اس خوشبو سے بہتر ہے
کہ اس بے فیض گلشن سے بندھی مُٹھی گزر جائیں
*****



اُلجھن : امجد اسلام امجد


وہ ایک سوچا ہوا ناز سا تکلم میں
نظر میں ایک جھجک سی کوئی بنائی ہوئی

لبوں پہ ایک تبسم ذرا لجایا سا
جبیں پہ بزمِ مروت سجی سجائی ہوئی
ڈھکا ڈھکا سا تکبر وہ بات سننے میں
تھی جس میں حسن کی نازش کہیں چھپائی ہوئی
بدن میں خوف کی لرزش بھی، اور دعوت بھی
گریز کرتی ہوئی اور قریب آئی ہوئی
کچھ اس کو دیکھ کے کھلتا نہ تھا کہ کیا ہے

فریب دیتی ہوئی یا فریب کھائی ہوئی

Mustafa zaidi



کیا کیا نظر کو شوقِ ہوس دیکھنے میں تھا : مصطفیٰ زیدی


کیا کیا نظر کو شوقِ ہوس دیکھنے میں تھا
دیکھا تو ہر جمال اسی آئینے میں تھا

قُلزُم نے بڑ ھ کے چو م لئے پھول سے قدم
دریائے رنگ و نور ابھی راستے میں تھا

اِک موجِ خونِ خَلق تھی کس کی جبیں پہ تھی
اِک طو قِ فردِ جرم تھا ،کس کے گلے میں تھا

اِک رشتۂ وفا تھا سو کس ناشناس سے
اِک درد حرزِ جاں تھا سو کس کے صلے میں تھا

صہبائے تند و تیز کی حدت کو کیا خبر
شیشے سے پوچھیے جو مزا ٹوٹنے میں تھا

کیا کیا رہے ہیں حرف و حکایت کے سلسلے
وہ کم سخن نہیں تھا مگر دیکھنے میں تھا

تائب تھے احتساب سے جب سارے بادہ کش
مجھ کو یہ افتخار کہ میں میکدے تھا


پیر، 1 اپریل، 2013

Ahmad Nadeem Qasmi

Ahmad Nadeem Qasmi    احمد ندیم قاسمی

                                                         پڑھنے كے لیے تصویر كلك كیجیے

ہفتہ، 16 مارچ، 2013

Ameer meenai امیر مینائی





ایک دل، ہمدم مرے پہلو سے کیا جاتا رہا
سب تڑپنے تلملانے کا مزا جاتا رہا

سب کرشمے تھے جوانی کے، جوانی کیا گئی
وہ اُمنگیں مِٹ گئیں، وہ ولوَلا جاتا رہا

درد باقی، غم سلامت ہے، مگر اب دل کہاں
ہائے وہ غمِ دوست، وہ درد آشنا جاتا رہا

آنے والا، جانے والا، بیکسی میں کون تھا
ہاں مگر اک دم، غریب آتا رہا جاتا رہا

آنکھ کیا ہے، موہنی ہے، سحر ہے، اعجاز ہے
اک نگاہِ لطف میں سارا گِلا جاتا رہا

جب تلک تم تھے کشیدہ، دل تھا شکووں سے بھرا
تم گَلے سے مِل گئے، سارا گلا جاتا رہا

کھو گیا دل کھو گیا، رہتا تو کیا ہوتا، امیر
جانے دو اک بے وفا جاتا رہا جاتا رہا
(امیر مینائی)

پیر، 23 جولائی، 2012

تری اُمید ترا انتظار جب سے ہے : فیض احمد فیض Faiz Ahmad Faiz


تری اُمید ترا انتظار جب سے ہے : فیض احمد فیض

تری اُمید ترا انتظار جب سے ہے

نہ شب کو دن سے شکایت، نہ دن کو شب سے ہے

کس کا درد ہو کرتے ہیں ہم تیرے نام رقم

گِلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے

ہُوا ہے جب سے دلِ نا صبُور بے قابو

کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے

اگر شرر ہے تو بھڑکے، جو پھول ہے تو کھِلے

طرح طرح کی طلب، تیرے رنگِ لب سے ہے

کہاں گئے شبِ فرقت کے جاگنے والے

ستارۂ سحری ہم کلام کب سے ہے

احمد ندیم قاسمی Ahmad Nadeem Qasmi


شعوُر میں، کبھی احساس میں بساؤں اُسے
مگر مَیں چار طرف بے حجاب پاؤں اُسے

اگرچہ فرطِ حیا سے نظر نہ آؤں اُسے
وہ رُوٹھ جائے تو سو طرح سے مناؤں اُسے

طویل ہجر کا یہ جبر ہے، کہ سوچتا ہوں
جو دل میں بستا ہے، اب ہاتھ بھی لگاؤں اُسے

اُسے بلا کے مِلا عُمر بھر کا سناّٹا
مگر یہ شوق، کہ اِک بار پھر بلاؤں اُسے

اندھیری رات میں جب راستہ نہیں مِلتا
مَیں سوچتا ہوں، کہاں جا کے ڈھوُنڈ لاؤں اُسے

ابھی تک اس کا تصوّر تو میرے بس میں ہے
وہ دوست ہے، تو خدا کِس لیے بناؤں اُسے

ندیم ترکِ محبت کو ایک عُمر ہوئی
مَیں اب بھی سوچ رہا ہوں، کہ بُھول جاؤں اُسے

احمد ندیم قاسمی

مظفر وارثی Muzafar warsi


قانون ِ تقاضہ پہ عمـــــــــــــــــل کیوں نہیں ہوتا
جس ہاتھ میں پتھر ہے وہ شل کیوں نہیں ہوتا

بچہ ہے غریبوں کا تو کچھ اس کا بھی حق ہے
کیچڑ میں پلا ہے تو کنــــــــــول کیوں نہیں ہوتا

سلطان و گدا دونوں ہی مٹی کی غذا ہیں
ہر قبر پہ اک تاج محـــــــــل کیوں نہیں ہوتا

سچائی کا اعلان تو کرتی ہیں زبانـــــــــیں
اس پیڑ پہ لیکن کوئی پھل کیوں نہیں ہوتا

کردار سے کیوں بوئے محبــــــت نہیں آتی
یہ ذہر ہے تو خون میں حل کیوں نہیں ہوتا

ٹلتے ہی چلے جاتے ہیں کیوں اپنے ارادے
جو آج نہ ہو کام وہ کل کـــــــــیوں نہیں ہوتا

تخلیق ضرورت کا ادب کیوں نہیں کرتــی
نوحہ بھی مظفر کا غزل کیوں نہیں ہوتا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مظفر وارثی

پروین شاکر Parveen Shakir


پروین شاکر

ا پنی رسوائی تیرے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

نیند آجائے تو کیا محفلیں پرپا دیکھوں
آنکھ کُل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکوں

شام بھی ہو گئی دھندلا گئیں آنکھیں بھی مری
جانے والے میں کب تک تیرا رستہ دیکھوں

سب ضدیں اس کی میں پوری کرو ہر بات سُنو
ایک بچے کی طرح سے اسے ہنستا دیکھوں

مجھ پہ چھا جائے وہ بارش کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اُسی رُت میں مہکتا دیکھوں

تُو میری طرح سے یکتا ہے مگر میرے حبیب
جی میں آتا ہے کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں

میں نے جس لمحے کو پُوجا ہے اسے بس اک بار
خواب بن کر تیری آنکھ میں اُترتا دیکھوں

دیوان ِ غالبؔ سے نعتیہ اشعار کا انتخاب Naat e nabi Mirza Ghalib

دیوان ِ غالبؔ سے نعتیہ اشعار کا انتخاب

1:۔ اس کی امت میں ہوں میں، میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شہ ﷺ کے، غالبؔ! گنبدِ بے در کھلا

2:۔کل کیلئے کر آج نہ خست شراب میں
یہ سوءِ ظن ہے ساقیِ کوثرﷺ کے با ب میں

3:۔ یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے!
کہ غیر جلوہء گل ، رہگزر میں خاک نہیں

4:۔ بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے
غلامِ ساقیِ کوثرﷺ ہوں، مجھ کو غم کیا ہے

5:۔ پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر بارِ منتِ درباں کیے ہوئے

6:۔ زباں پہ بارِ خدایا! یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے میری زباں کے لیے