اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

جمعہ، 31 جولائی، 2015

جون ایلیا کی منتخب غزلیں اور شاعری


ھی گر آنے میں مصلحت حائل
یاد آنا کوئی ضروری تھا

دیکھیے ہو گئی غلط فہمی
مسکرانا کوئی ضروری تھا

لیجیے بات ہی نہ یاد رہی
گُنگُنانا کوئی ضروری تھا

گُنگُنا کر مری جواں غزلیں
جھُوم جانا کوئی ضروری تھا

مجھ کو پا کر کسی خیال میں گُم
چھُپ کے آنا کوئی ضروری تھا

اُف وہ زلفیں ، وہ ناگنیں ، وہ ہنسی
یوں ڈرانا کوئی ضروری تھا

اور ایسے اہم مذاق کے بعد
رُوٹھ جانا کوئی ضروری تھا
***
بزم سے جب نگار اٹھتا ہے
میرے دل سے غبار اٹھتا ہے
میں جو بیٹھا ہوں تو وہ خوش قامت
دیکھ لو! بار بار اٹھتا ہے
تیری صورت کو دیکھ کر مری جاں
خود بخود دل میں پیار اٹھتا ہے
اس کی گُل گشت سے روش بہ روش
رنگ ہی رنگ یار اٹھتا ہے
تیرے جاتے ہی اس خرابے سے
شورِ گریہ ہزار اٹھتا ہے
کون ہے جس کو جاں عزیز نہیں؟
لے ترا جاں نثار اٹھتا ہے
صف بہ صف آ کھڑے ہوئے ہیں غزال
دشت سے خاکسار اٹھتا ہے
ہے یہ تیشہ کہ ایک شعلہ سا
بر سرِ کوہسار اٹھتا ہے
کربِ تنہائی ہے وہ شے کہ خدا
آدمی کو پکار اٹھتا ہے
تو نے پھر کَسبِ زَر کا ذکر کیا
کہیں ہم سے یہ بار اٹھتا ہے
لو وہ مجبورِ شہر صحرا سے
آج دیوانہ وار اٹھتا ہے
اپنے ہاں تو زمانے والوں کا
روز ہی اعتبار اٹھتا ہے
جون اٹھتا ہے، یوں کہو، یعنی
میر و غالب کا یار اٹھتا ہے
***
نیا اک ربط پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم

خموشی سے ادا ہو، رسمِ دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم

یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم

وفا، اخلاص، قربانی، محبت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم

ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم
تمھاری ہی تمنا کیوں کریں ہم

نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم

ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی
سو خود پر بھروسا کیوں کریں ہم

چبا لیں کیوں نہ خود ہی اپنا ڈھانچا
تمھیں راتب مہیا کیوں کریں ہم

جمعرات، 30 جولائی، 2015

مرزا اسد اللہ خاں غالب کی منتخب غزلیں ۔ بہترین اردو شاعری



دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے

ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے

میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے

سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

ہاں بھلا کر ترا بھلا ہو گا
اور درویش کی صدا کیا ہے

جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نے جانتا دعا کیا ہے

میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالب
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے

غالب
***
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا

دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا

بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور، کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل، اور آپ فرمائیں گے 'کیا'؟

حضرتِ ناصح گر آئیں، دیدہ و دل فرشِ راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا؟

آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا

گر کیا ناصح نے ہم کو قید، اچھا یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا

خانہ زادِ زلف ہیں، زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
ہیں گرفتارِ وفا، زنداں سے گھبرائیں گے کیا

ہے اب اس معمورے میں قحطِ غمِ الفت اسدؔ
ہم نے یہ مانا کہ دلّی میں رہیں، کھائیں گے کیا

***
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

ڈرے کیوں میرا قاتل ؟ کیا رہے گا اُس کی گر د ن پر
وہ خوں، جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے ؟

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

خدا کے واسطے پردہ نہ کعبہ سے اٹھا ظالم
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے

کہاں میخانے کا دروازہ غالبؔ! اور کہاں واعظ
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

***
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے، پردہ ہے ساز کا

رنگِ شکستہ صبحِ بہارِ نظارہ ہے
یہ وقت ہے شگفتنِ گل ہائے ناز کا

تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
میں اور دُکھ تری مِژہ ہائے دراز کا

ہیں بسکہ جوشِ بادہ سے شیشے اچھل رہے
ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا

تاراجِ کاوشِ غمِ ہجراں ہوا، اسدؔ

سینہ، کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا

۔۔۔۔۔
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

نہ شعلہ میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخ تند خو کیا ہے

یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوف بد آموزی عدو کیا ہے

چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے

جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادۂ گلفام مشک بو کیا ہے

پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے

رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے

ہوا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
۔۔۔۔
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک

دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہوتے تک

عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہوتے تک

تا قیامت شب فرقت میں گزر جائے گی عمر
سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں سحر ہوتے تک

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک

پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہوتے تک

یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل
گرمیٔ بزم ہے اک رقص شرر ہوتے تک

غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک

EID POETRY IN ROMAN URDU AND URDU عدید پر منتخب پسندیدہ اشعار



دیکھا حلال عید تو معحسوس یوں ہوا
لو ایک سال اور جدائی کا کٹ گیا
Dekha halale Eid to mehsos yoon hova
lo ek sal awr judai ka kat gaya
***
دیکھا عید کا چاند تہ مانگی یہ دعا رب سے
دے دے تیرا ساتھ عید کا تحفہ سمجھ کے
dekha eid ka chand to mangi yeh dua rab se
de de tera sath eid ka tuhfa samajh ke
***
تعری خواہش بس تیری امید کارتا ہے کوئی
دیکھ کر تجھ کہ معری جان عید کرتا ہے کوئی
teri khawahish bas teri umeed karta he koi
dekh kr tujh ko meri jaan eid karta he koi
***
tere kehne pe lagai he yeh mehndi main ne
eid par ab na to aaya to qayamat ho gi
***
Eid ke chand ko dekhe na koi mere siwa
is ke deedar ko ik sal guzara main ne
***
tere chehre se hi talooh ho ga eid ka chand
hamain bhi hasrat he is bar eid manane ki
***
shayad tum aao main ne isi intezar main
ab ke baras ki eid bhi tanha guzar di
***
yeh eid to phir se lot aayi
jo bichre hain wo kab lotain ge
***
kitni eidain guzar gai tum bin ab khuda ke liye na tarpana
dekho phir eid aane wali he eid ke sath tum bhi a jana
***
eid un ki guzri jin ko deddare yar naseeb hova
hamari to eid guzar gai zikre yar karte karte
****
hata kar zulf chehre se na chat par sham ko jana
kahain koi eid na kar le abhi ramzan baqi he

ناصر کاظمی کی منتخب غزلیں



غم ہے یا خوشی ہے تو
میری زندگی ہے تو

آفتوں کے دور میں
چین کی گھڑی ہے تو

میری رات کا چراغ
میری نیند بھی ہے تو

میں خزاں کی شام ہوں
رُت بہار کی ہے تو

دوستوں کے درمیاں
وجہِ دوستی ہے تو

میری ساری عمر میں
ایک ہی کمی ہے تو

میں تو وہ نہیں رہا
ہاں مگر وہی ہے تو

ناصر اس دیار میں
کتنا اجنبی ہے تو
ناصر کاظمی
۔۔۔۔
کل جنہیں زندگی تھی راس بہت
آج دیکھا انہیں‌اداس بہت

رفتگاں کا نشاں نہیں ملتا
اُگ رہی ہے زمیں پہ گھاس بہت

کیوں نہ روؤں تری جدائی میں
دن گزرتے ہیں تیرے پاس بہت

چھاؤں مل جائے دامنِ گل کی
ہے غریبی میں یہ لباس بہت

وادیِ دل میں پاؤں دیکھ کے رکھ
ہے یہاں درد کی اُگاس بہت

سوکھے پتوں کو دیکھ کر ناصر
یاد آتی ہے گل کی باس بہت



جمعہ، 17 جنوری، 2014

ادا جعفری ...ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے



ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سرِ الزام ہی آئے

حیران ہیں، لب بستہ ہیں، دل گیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی تیرا پیغام ہی آئے

لمہحاتِ مسرت ہیں تصوّر سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے

تاروں سے سجالیں گے رہ شہرِ تمنّا
مقدور نہیں صبح ، چلو شام ہی آئے

کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس راہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے

تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ کوئے تمنّا
کام آئے تو پھر جذبئہِ نام ہی آئے

باقی نہ رہے ساکھ ادا دشتِ جنوں کی 
دل میں اگر اندیشہ انجام ہی آئے

جمعرات، 16 جنوری، 2014

لكھ دیا اپنے در پہ كسی نے اس جگہ پیار كرنا منع ہے Qateel shifai



لكھ دیا اپنے در پہ كسی نے اس جگہ پیار كرنا منع ہے
  پیار اگر ہو بھی جائے كسی كو اس كا اظہار كرنا منع ہے
   ان كی محفل میں جب كوئی جائے پہلے نظریں وہ اپنی جھكائے
    وہ صنم جو خدا بن گئے ہیں ان كا دیدار كرنا منع ہے
   جاگ اٹھیں گے تو آہیں بھریں گے حسن والوں كو رسوا كریں گے
  سو گئے ہیں جو فرقت كے مارے    ان كو بیدار كرنا منع ہے
   ہم نے كی عرض اے بندہ پرور كیوں ستم ڈھا رہے ہو یہ ہم پر
   بات سن كر ہماری وہ بولے ہم سے تكرار كرنا منع ہے
   سامنے جو كھلا ہے جھرونكا آنا جانا قتیل ان كا دھوكا
   اب بھی اپنے لیے اس گلی میں میں شب دیدار كرنا منع ہے
****
جب درمیاں ہمارے، یہ سنگدل زمانہ، دیوار چن رہا تھا
میں ضبط کی حدوں میں، تیری خموشیوں کی گفتار سُن رہا تھا

عرض و طلب کا نغمہ، کل رات جب چھیڑا تھا اک سازِ بے صدا پر
تھا محو میں بھی لیکن، سر بیخودی میں تو بھی، ہر بار دُھن رہا تھا

روزِازل سے مجھ کو، بت خانہِ وفا سے، تھی اِس لئے عقیدت
بِکھرے ہوئے بُتوں سے، میں اپنی عظمتوں کے، شہکار چُن رہا تھا

معلوم تھا یہ کس کو، غم کی سیاہ راتیں، کاٹے نہ کٹ سکیں گی
میں آس پاس اپنے، ہالا تسلیوں کا بیکار بُن رہا تھا

جب پو پھٹی تو بڑھ کر، کچھ نا اُمیدیوں نے مجھ سے قتیل پوچھا
کیا تو ہی ہے جواب تک، موہوم آہٹوں کی جھنکار سن رہا تھا

***
بے کیف جوانی میں کیا کیا سامان خریدے جاتے ہیں
آہوں کے بگولے اشکوں کے طوفان خریدے جاتے ہیں

دل سے تو کوئی کیا چاہے گا اس اُجڑے ہوئے کاشانے کو
مجبوری کا یہ عالم ہے مہمان خریدے جاتے ہیں

ہر چیز کا سودا چکتا ہے دن رات بھرے بازاروں میں
جھنکاریں بیچی جاتی ہیں ایمان خریدے جاتے ہیں

اک بات بھی ہوتی تُل جاتے ہم سونے کی میزانوں میں
افسوس یہاں دو کوڑی میں انسان خریدے جاتے ہیں.


***
زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں
میں تو مر کر بھی مری جان تجھے چاہوں گا

Zindagi Main To Sabhi Pyaar Kiya Kartay Hain
Main To Mar Kar Bhi Meri Jaan Tujhay Chahoun Ga

تو ملا ہے تو یہ احساس ہوا ہے مجھ کو
یہ میری عمر محبت کے لیے تھوڑی ہے

To Mila Hay To Yeh Ahsaas Hua Hay Mujhko
Yeh Meri Umer Muhabbat k Liye Thori Hay

اک ذرا سا غمِ دوراں کا بھی حق ہے جس پر
میں نے وہ سانس بھی تیرے لیے رکھ چھوڑی ہے

Ek Zara Sa Gham-e-Doraan Ka Bhi Haq Hay Jis Par
Main nay Woh Saans Bhi Tere Liye Rakh Chori Hay

تجھ پہ ہو جاؤں گا قربان تجھے چاہوں گا
میں تو مر کر بھی مری جان تجھے چاہوں گا

Tujh Pah Ho Jaun Ga Qurbaan Tujhay Chahoun Ga
Main To Mar Kar Bhi Meri Jaan Tujhay Chahoun Ga


*****

نگاہوں میں خمار آتا ہوا محسوس ہوتا ہے
تصور جام چھلکاتا ہوا محسوس ہوتا ہے

Nigahoun Main Khumaar Ata Hua Mehsos hota hay
Tasawur-e-Jaam Chalkata hua Mehsoos Hota Hay

خرام ناز۔ اور اُن کا خرام ناز ؟ کیا کہنا
زمانہ ٹھوکریں کھاتا ہوا محسوس ہوتا ہے

Khram-e-Naaz. aur unka Kharam-e-Naaz? Kya Kehna
Zamana Thokrain Khata Hua Mehsos Hota Hay

تصور ایک ذہنی جستجو کا نام ہے شاید
دل اُن کو ڈھونڈ کر لاتا ہوا محسوس ہوتا ہے

Tasawur Aik Zehni Justaju Ka Naam Hay Shayad
Dil Unko Dhound Kar Laata hua Mehsoos Hota Hay

کسی کی نقرئی پازیب کی جھنکار کے صدقے
مجھے سارا جہاں گاتا ہوا محسوس ہوتا ہے

Kisi Ki Naqrai Pazaib Ki Jhankaar k Sadqay
Mujhay Sara Jahan Gaata Hua Mehsoos Hota Hay

قتیلؔ اب دل کی دھڑکن بن گئی ہے چاپ قدموں کی
کوئی میری طرف آتا ہوا محسوس ہوتا ہے

Qateel Ab Dil Ki Dharkan Ban Gayi Hay Chaap Qadmoun Ki
Koi Meri Taraf Aata Hua Mehsoos Hota Hay

Jon elia ... جب تری جان ہو گئی ہو گی


علامہ جون ایلیا (14 دسمبر، 1937ء – 8 نومبر، 2002ء) برصغیر میں نمایاں حیثیت رکھنے والے پاکستانی شاعر، فلسفی، سوانح نگار اور عالم تھے۔ وہ اپنے انوکھے انداز تحریر کی وجہ سے سراہے جاتے تھے۔ وہ معروف صحافی رئیس امروہوی اور فلسفی سید محمد تقی کے بھائی، اور مشہور کالم نگار زاہدہ حنا کے سابق خاوند تھے۔ جون ایلیا کو عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی میں اعلی مہارت حاصل تھی۔

جب تری جان ہو گئی ہو گی
جان حیران ہو گئی ہوگی

شب تھا میری نگاہ کا بوجھ اس پر
وہ تو ہلکان ہو گئی ہوگی

اس کی خاطر ہوا میں خار بہت
وہ میری آن ہو گئی ہو گی

ہو کے دشوار زندگی اپنی
اتنی آسان ہو گئی ہوگی

بے گلہ ہوں میں اب بہت دن سے
وہ پریشان ہو گئی ہوگی

اک حویلی تھی دل محلے میں
اب وہ ویران ہو گئی ہوگی

اس کے کوچے میں آئی تھی شیریں
اس کی دربان ہو گئی ہوگی

کمسنی میں بہت شریر تھی وہ
اب تو شیطان ہو گئی ہوگی
***************
ک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں : جون ایلیا

اِک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
سب کے دل سے اُتر گیا ہوں میں

کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کروں
سُن رہا ہوں کہ گھر گیا ہوں میں

کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں

اب ہے اپنا سامنا درپیش
ہر کسی سے گزر گیا ہوں میں

وہی ناز و ادا ، وہی غمزے
سر بہ سر آپ پر گیا ہوں میں
********
دل نے وفا کے نام پر کارِ وفا نہیں کیا
خود کو ہلاک کر لیا، خود کو فدا نہیں کیا

کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی
تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا

تو بھی کسی کے باب میں عہد شکن ہو غالباً
میں نے بھی ایک شخص کا قرض ادا نہیں کیا

جو بھی ہو تم پہ معترض، اُس کو یہی جواب دو
آپ بہت شریف ہیں، آپ نے کیا نہیں کیا

جس کو بھی شیخ و شاہ نے حکمِ خُدا دیا قرار
ہم نے نہیں کیا وہ کام، ہاں با خُدا نہیں کیا

نسبت علم ہے بہت حاکمِ وقت کو ہے عزیز
اُس نے تو کارِ جہل بھی بے علما نہیں کیا

اداسی میں گِھرا تھا دِل چراغِ شام سے پہلے Amjad Islam amjad


اداسی میں گِھرا تھا دِل چراغِ شام سے پہلے
نہیں تھا کُچھ سرِ محفل چراغِ شام سے پہلے

حُدی خوانو، بڑھاؤ لَے، اندھیرا ہونے والا ہے
پہنچنا ہے سرِ منزل چراغِ شام سے پہلے

دِلوں میں اور ستاروں میں اچانک جاگ اُٹھتی ہے
عجب ہلچل، عجب جِھل مِل چراغِ شام سے پہلے

وہ ویسے ہی وہاں رکھی ہے ، عصرِ آخرِ شب میں
جو سینے پر دھری تھی سِل، چراغِ شام سے پہلے

ہم اپنی عُمر کی ڈھلتی ہُوئی اِک سہ پہر میں ہیں
جو مِلنا ہے ہمیں تو مِل، چراغِ شام سے پہلے

ہمیں اے دوستو اب کشتیوں میں رات کرنی ہے
کہ چُھپ جاتے ہیں سب ساحل، چراغِ شام سے پہلے

سَحر کا اوّلیں تارا ہے جیسے رات کا ماضی
ہے دن کا بھی تو مُستَقبِل، چراغِ شام سے پہلے

نجانے زندگی اور رات میں کیسا تعلق ہے !
اُلجھتی کیوں ہے اِتنی گلِ چراغِ شام سے پہلے

محبت نے رگوں میں کِس طرح کی روشنی بھردی !
کہ جل اُٹھتا ہے امجد دِل، چراغِ شام سے پہلے

امجد اسلام امجد

پیر، 30 دسمبر، 2013

ابھی تو میں جوان ہوں


ابو الاثر حفیظ جالندھری 


ابو الاثر حفیظ جالندھری كی آج برسی ہے آپ پاكستان كے قومی ترانے كے خالق بھی ہیں 
آپ 14 جنوری 1900 میں برٹش انڈیا كے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے آپ كا تعلق راجپوت گھرانے سے تھا
آپ كے والد شمس الدین حافظ قرآن تھے آپ نے ابتدائی تعلیم ایك مسجد میں حاصل كی
اس مسجد كو بعد میں ایك اسكول سے منسلك كر دیا گیا جہاں آپ ساتویں كلاس تك پڑھا
قیام پاكستان میں آپ ہجرت كر كے لاہور آ گئے
آپ كشمیر كے ترانے كے بھی خالق ہیں وطن ہمارا آزاد كشمیر
حكومت پاكستان كی طرف سے آپ كو حلال امتیاز اوراعلی كاركردگی كے اعزاز سے نوازا
شاہ نامہء اسلام آپ كی وجہ شہرت بنا
آپ نے 21 دسمبر 1982كو وفات پائی
آپ كی مشہور زمانہ نظم آج بھی زبان عام ہے
**********************************

ہوا بھی خوش گوار ہے
گلوں پہ بھی نکھار ہے
ترنّمِ ہزار ہے
بہارِ پُر بہار ہے
کہاں چلا ہے ساقیا
اِدھر تو لوٹ، اِدھر تو آ
یہ مجھ کو دیکھتا ہے کیا
اٹھا سبُو، سبُو اٹھا
سبُو اٹھا، پیالہ بھر
پیالہ بھر کے دے اِدھر
چمن کی سمت کر نظر
سماں تو دیکھ بے خبر
وہ کالی کالی بدلیاں
افق پہ ہو گئیں عیاں
وہ اک ہجومِ مے کشاں
ہے سوئے مے کدہ رواں
یہ کیا گماں ہے بد گماں
سمجھ نہ مجھ کو ناتواں

خیالِ زہد ابھی کہاں
ابھی تو میں جوان ہوں

عبادتوں کا ذکر ہے
نجات کی بھی فکر ہے
جنون ہے ثواب کا
خیال ہے عذاب کا
مگر سنو تو شیخ جی
عجیب شے ہیں آپ بھی
بھلا شباب و عاشقی
الگ ہوئے بھی ہیں کبھی
حسین جلوہ ریز ہوں
ادائیں فتنہ خیز ہوں
ہوائیں عطر بیز ہوں
تو شوق کیوں نہ تیز ہوں
نگار ہائے فتنہ گر
کوئی اِدھر کوئی اُدھر
ابھارتے ہوں عیش پر
تو کیا کرے کوئی بشر
چلو جی قصّہ مختصر
تمھارا نقطۂ نظر

درست ہے تو ہو مگر
ابھی تو میں جوان ہوں

نہ غم کشود و بست کا
بلند کا نہ پست کا
نہ بود کا نہ ہست کا
نہ وعدۂ الست کا
امید اور یاس گم
حواس گم، قیاس گم
نظر کے آس پاس گم
ہمہ بجز گلاس گم
نہ مے میں کچھ کمی رہے
قدح سے ہمدمی رہے
نشست یہ جمی رہے
یہی ہما ہمی رہے
وہ راگ چھیڑ مطربا
طرَب فزا، الَم رُبا
اثر صدائے ساز کا
جگر میں آگ دے لگا
ہر ایک لب پہ ہو صدا
نہ ہاتھ روک ساقیا

پلائے جا پلائے جا
ابھی تو میں جوان ہوں

یہ گشت کوہسار کی
یہ سیر جوئبار کی
یہ بلبلوں کے چہچہے
یہ گل رخوں کے قہقہے
کسی سے میل ہو گیا
تو رنج و فکر کھو گیا
کبھی جو بخت سو گیا
یہ ہنس گیا وہ رو گیا
یہ عشق کی کہانیاں
یہ رس بھری جوانیاں
اِدھر سے مہربانیاں
اُدھر سے لن ترانیاں
یہ آسمان یہ زمیں
نظارہ ہائے دل نشیں
انھیں حیات آفریں
بھلا میں چھوڑ دوں یہیں
ہے موت اس قدر قریں
مجھے نہ آئے گا یقیں

نہیں نہیں ابھی نہیں
ابھی تو میں جوان ہوں


زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں



زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں 


میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا 

تو ملا ہے تو یہ احساس ہوا ہے مجھ کو 
یہ میری عمر محبت کے لیے تھوڑی ہے 
اک ذرا سا غمِ دوراں کا بھی حق ہے جس پر
میں نے وہ سانس بھی تیرے لیے رکھ چھوڑی ہے

تجھ پہ ہو جاؤں گا قربان تجھے چاہوں گا
میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا

اپنے جذبات میں نغمات رچانے کے لیے
میں نے دھڑکن کی طرح دل میں بسایا ہے تجھے
میں تصور بھی جدائی کا بھلا کیسے کروں
میں نے قسمت کی قسمت کی لکیروں‌ سے
چرایا ہے تجھے

پیار کا بن کے نگہبان تجھے چاہوں گا
میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا

تیری ہر چاپ سے جلتے ہیں خیالوں‌میں چراغ
جب بھی تو آئے جگاتا ہوا جادو آئے
تجھ کو چھو لوں‌تو پھر اے جانِ تمنا مجھ کو
دیر تک اپنے بدن سے تری خوشبو آئے

تو بہاروں کا ہے عنوان تجھے چاہوں گا
میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا

زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں
میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا !