اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

اتوار، 13 ستمبر، 2015

محسن نقوی کی منتخب شاعری

چھو جائے ہوا جس سے تو خوشبو تیری آئے
جاتے ہوئے اک زخم تو ایسا مجھے دینا
اک درد کا میلہ ہے ، لگا ہے دل و جاں‌میں
اک روح کی آواز کا رستہ مجھے دینا
اک تازہ غزل اذنِ سخن مانگ رہی ہے
تم اپنا مہکتا ہوا لہجہ مجھے دینا
وہ مجھ سے کہیں بڑھ کے مصیبت میں تھا محسن
رہ رہ کے مگر اس کا دلاسا مجھے دینا
محسن نقوی
اب اے میرے احساسِ جنوں کیا مجھے دینا
دریا اسے بخشا ہے تو صحرا مجھے دینا
تم اپنا مکاں جب کرو تقسیم تو یارو
گرتی ہوئی دیوار کا سایہ مجھے دینا
جب وقت کی مجروح ہوئی شاخ سنبھالو
اس شاخ سے ٹوٹا ہوا لمحہ مجھے دینا
تم میرا بدن اوڑھ کے پھر تے رہو لیکن
ممکن ہو تو اک دن میرا چہرہ مجھے دینا
محسن نقوی
شدتِ غم میں بھی زندہ ہوں تو حیرت کیسی؟
کچھ دِیے تُند ہواؤں سے بھی لڑ جاتے ہیں
وہ بھی کیا لوگ ہیں محسن جو وفا کی خاطر!
خود تراشیدہ اُصولوں پہ بھی اَڑ جاتے ہیں
محسن نقویاُجاڑ رُت کو گلابی بنائے رکھتی ہے
ہماری آنکھ تیری دید سے وضو کر کے
کوئی تو حبسِ ہوَا سے یہ پوچھتا محسنؔ
مِلا ہے کیا اُسے کلیوں کو بے نمو کر کے
محسن نقوی
وفا میں اب یہ ہُنر اختیار کرنا ہے
وہ سچ کہے نا کہے اعتبار کرنا ہے
یہ تجھ کو جاگتے رہنے کا شوق کب سے ہوا؟
مجھے تو خیر تیرا انتظار کرنا ہے
ہوا کی زد میں جلانے ہیں آنسوؤں کے چراغ
کبھی یہ جشن سرِ راہگزار کرنا ہے
وہ مسکرا کے نٔے وسوسوں میں ڈال گیا
خیال تھا کہ اُسے شرمسار کرنا ہے
مثالِ شاخِ برہنہ خزاں کی رُت میں کبھی
خود اپنے جسم کو بے برگ وبار کرنا ہے
ترے فراق مین دن کس طرح کٹیں اپنے
کہ شغلِ شب تو ستارے شمار کرنا ہے
چلو یہ اشک ہی موتی سمجھ کے بیچ آئیں
کسی طرح تو ہمیں روزگار کرنا ہے
کبھی تو دل میں چھپے زخم بھی نمایاں ہوں !
قبا سمجھ کے بدن کو تار تار کرنا ہے
خدا خیر یہ کوئی ضد کہ شوق ہے محسن
خود اپنی جان کے دُشمن سے پیار کرنا ہے
محسن نقوی
راہِ وفا میں اذیتِ شناسائیاں نہ گئیں
کسی بھی رت میں ہماری اداسیاں نہ گئیں
تنی ہے ابر کی چادر بھی آسماں پہ مگر
شعاعِ مہر ، تیری بے لباسیاں نہ گئیں
تیرے قریب بھی رہ کر تجھے تلاش کروں
محبتوں میں میری بدحواسیاں نہ گئیں
خدا خبر کہاں کونجوں کے قافلے اترے
سمندر کی طرف بھی تو پیاسیاں نہ گئیں
خزاں میں بھی تو مہکتی غزل پہن کے ملا
مزاجِ یار تیری خوش لباسیاں نہ گئیں
بسنت رت میں بھی مندر اداس تھے محسن
کہ دیوتاؤں سے ملنے کو داسیاں نہ گئیں
محسن نقوی
باغی میں آدمی سے نہ منکر خدا کا تھا
درپیش مسئلہ میری اپنی انا کا تھا
گم سم کھڑا تھا ایک شجر دشتِ خوف میں
شائید وہ منتظر کسی آندھی ہوا کا تھا
اپنے دھوئیں کو چھوڑ گیا آسمان پر
بجھتے ہوئے دیئے میں غرور انتہا کا تھا
دیکھا تو وہ حسین لگا سارے شہر میں
سوچا تو وہ ذہین بھی ظالم بلا کا تھا
لہرا رہا تھا کل جو سرِ شاخ بے لباس
دامن کا تار تھا کہ وہ پرچم صبا کا تھا
اس کو غلافِ روح میں رکھا سنبھال کر
محسن وہ زخم بھی تو کسی آشنا کا تھا
محسن نقوی
اسی کو صبح مسافت نے چُور کر ڈالا
وہ آفتاب جسے دوپہر میں ڈھلنا تھا
عجب نصیب تھا محسن کہ بعد مرگ مجھے
چراغ بن کے خود اپنی لحد پہ جلنا تھا
محسن نقوی
میرے بس میں ہو تو کبھی کہیں
کوئی شہر ایسا بساؤں میں
جہاں فاختاؤں کی پھڑپھڑاہٹ سے نغمہءِ زارِ حیات میں
جھنجھناتی سانسوں کی جھانجھریں جو چھنک اٹھیں
تو دھنک کے رنگوں میں بھیگ جائیں حواس تک
جہاں چاند، ماند نہ ہو کبھی، جہاں چاندنی کی ردا بنے
میری بانجھ دھرتی کے باسیوں کا لباس تک
جہاں صرف حکمِ یقیں چلے، جہاں بے نشاں ہو قیاس تک
جہاں آدمیت کے ناطق و لب پہ نہ شہرِ یار کا خوف ہو
جہاں سر سرائے نہ آدمی کی رگوں میں کوئی ہراس تک
جہاں وہم نہ ہو، نہ دلوں میں وہم کا سہم ہو
جہاں سچ کو سچ سے ہو واسطہ
جہاں جگنوؤں کو ہوا دیکھاتی ہو راستہ
جہاں خوشبوؤں سے بدلتی رت کو حسد نہ ہو
جہاں پستیوں سے بلندیوں کو بھی قد نہ ہو
جہاں خواب آنکھوں جگمگائیں تو
جسم و جاں کے سبھی دریچوں میں تیرگی کا گزر نہ ہو
کوئی رات ایسی بسر نہ ہو کہ بشر کو اپنی خبر نہ ہو
جہاں داغ داغ سحر نہ ہو
جہاں کشتیاں ہوں رواں دواں تو سمندروں میں بھنور نہ ہو
جہاں برگ و بار سے اجنبی کوئی شاخ ، کوئی شجر نہ ہو
جہاں چہچہاتے ہوئے پرندوں کو بارشوں کے عذاب کا ڈر نہ ہو
میرے بس میں ہو تو کبھی کہیں
کوئی شہر ایسا بساؤں میں
جہاں برف برف محبتوں پہ غمِ جہاں کا اثر نہ ہو
راہ و رسمِ دنیا کی بندشیں ، غمِ ذات کے سبھی ذائقے
سمِ کائنات کی تلخیاں، کسی آنکھ کو بھی نہ چھو سکیں
جہاں میرے سانس کی تازگی تیری چاہتوں کے کنول میں ہو
تیرا حسن میری غزل میں ہو
جہاں کائنات کی اک صدف، شب و روز کےکسی پل میں‌ہو
جہاں نوحہءِ غمِ زندگی، میری ہچکیوں سے عیاں نہ ہو
جہاں لوحِ خاک پہ عمر بھر کسی بے گناہ کے خون کا
کوئی داغ کوئی نشاں نہ ہو
کوئی شہر ایسا کبھی کہیں
جہاں دھوپ چھاؤں گلے ملیں
جہاں بانجھ رت میں بھی گل کھلیں
جہاں چاہتوں کے ہجوم میں کبھی گیت امن کے گاؤں میں
جہاں زندگی کا رجز پڑہوں ، جہاں بے خلل گنگناؤں میں
جہاں موج موج کی اوٹ میں، تو کرن بنے، مسکراؤں میں
میرے بس میں ہو تو کبھی کہیں
کوئی شہر ایسا بساؤں میں
محسن نقوی
کبھی جو چھڑ گئی یادِ رفتگاں محسن
بکھر گئی ہیں نگاہیں کہاں کہاں محسن
ہوا نے راکھ اُ ڑائی تو دل کو یاد آیا
کہ جل بجھیں میرے خوابوں کی بستیاں محسن
کھنڈر ہے عہدِ گزشتہ نہ چھو نہ چھیڑ اسے
کھلیں تو بند نہ ہو اس کی کھڑکیاں محسن
بجھا ہے کون ستارا کہ اپنی آنکھ کے ساتھ
ہوئے ہیں سارے مناظر دھواں دھواں محسن
نہیں کہ اس نے گنوائے ہیں ماہ و سال اپنے
تمام عمر کٹی یوں بھی رائیگاں محسن
ملا تو اور بھی تقسیم کر گیا مجھ کو
سمیٹنا تھیں جسے میرے کرچیاں محسن
کہیں سے اس نے بھی توڑا ہے خود سے ربطِ وفا
کہیں سے بھول گیا میں بھی داستاں محسن
محسن نقوی
فنکار ہے تو ہاتھ میں سورج سجا کے لا
بجھتا ہوا دیا نہ مقابل ہوا کے لا
دریا کا انتقام ڈبو دے نہ گھر تیرا
ساحل سے روز روز نہ کنکر اٹھا کے لا
اب اختتام کو ہے سخی حرفِ التماس
کچھ ہے تو اب وہ سامنے دستِ دعا کے لا
پیامِ وفا کے باندھ مگر سوچ سوچ کر
اس ابتدا میں یوں نہ سخن انتہا کے لا
آرائشِ جراحتِ یاراں کی بزم ہے
جو زخم دل میں ہیں سبھی تن پر سجا کے لا
تھوڑی سی اور موج میں آ اے ہوائے گل
تھوڑی سی اس کے جسم کی خوشبو چرا کے لا
محسن اب اس کا نام ہے سب کی زبان پر
کس نے کہا کہ اس کو غزل میں سجا کے لا
محسن نقوی
اب اے میرے اِحساسِ جنوں کیا مجھے دینا
دریا اُسے بخشا ہے تو صحرا مجھے دینا
تم میرا مکاں جب کرو تقسیم تو یارو ۔۔
گرتی ہوئی دیوار کا سایہ مجھے دینا!
جب وقت کی مرجھائی ہوئی شاخ سنبھالو
اُس شاخ سے ٹوٹا ہوا لمحہ مجھے دینا
تم میرا بدن اوڑھ کے پھرتے رہو ، لیکن
ممکن ہو تو اِک دن مِرا چہرہ مجھے دینا
چھو جائے ہوا جس سے تو خوشبو تیری آئے
جاتے ہوئے اِک زخم تو ایسا مجھے دینا
شب بھر کی مسافت ہے گواہی کی طلبگار
اے صبحِ صفر ۔۔اپنا ستارہ مجھے دینا
اِک درد کا میلہ کہ لگا ہے دل و جان میں
اِک روح کی آواز کہ "رستہ مجھے دینا"
اِک تازہ غزل اذنِ سخن مانگ رہی ہے
تم اپنا مہکتا ہوا لہجہ مجھے دینا
وہ مجھ سے کہیں بڑھ کے مصیبت میں تھا محسن
رہ رہ کے مگر اُس کا دِلاسہ مجھے دینا
محسن نقوی

جمعہ، 11 ستمبر، 2015

وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا، اب اس کا حال بتائیں کیا . غزل

وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا، اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچا شعر سنائیں کیا

اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے، تا دیر اسے دہرائیں کیا
وہ زہر جو دل میں اتار لیا، پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا

اک آگ غمِ تنہائی کی، جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو، پھر دامنِ دل کو بچائیں کیا

پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں، یہ شمعیں بجھنے والی ہیں
ہم خود بھی کسی سے سوالی ہیں، اس بات پہ ہم شرمائیں کیا

ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے، ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
بے جذبۂ شوق سنائیں کیا، کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا
اظہر نفیس

بے خُود کِیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ​ . کلام حضرت بیدم شاہ وارثی


بے خُود کِیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ​
آ دِل میں تُجھے رکھ لُوں اے جلوہ جَانَانَہ​

کِیوں آنکھ مِلائی تِھی کیوں آگ لگائی تِھی​
اب رُخ کو چُھپا بیٹھے کر کے مُجھے دِیوانہ​

اِتنا تو کرم کرنا اے چِشمِ کریمانہ​
جب جان لبوں پر ہو تُم سامنے آ جانا​

اب موت کی سختِی تو برداشت نہیں ہوتِی​
تُم سامنے آ بیٹھو دم نِکلے گا آسانہ​

دُنیا میں مُجھے اپنا جو تُم نے بنایا ہے​
محشر میں بِھِی کہہ دینا یہ ہے مرا دیوانہ​

جاناں تُجھے مِلنے کی تدبِیر یہ سوچِی ہے​
ہم دِل میں بنا لیں گے چھوٹا سا صنم خانہ​

میں ہوش حواس اپنے اِس بات پہ کھو بیٹھا​
تُو نے جو کہا ہنس کے یہ ہے میرا دیوانہ​

پینے کو تو پِی لُوں گا پر عَرض ذرّا سی ہے​
اجمیر کا ساقِی ہو بغداد کا میخانہ​

کیا لُطف ہو محشر میں شِکوے میں کیے جاوں​
وہ ہنس کے یہ فرمائیں دیوانہ ہے دیوانہ​

جِی چاہتا ہے تحفے میں بھِیجُوں اُنہیں آنکھیں​
درشن کا تو درشن ہو نذرانے کا نذرانَہ​

بیدمؔ میری قِسمت میں سجدے ہیں اُسِی دّر کے​
چُھوٹا ہے نہ چُھوٹے گا سنگِ درِّ جَانَانَہ​
بیدم شاہ وارثی

لا اک خم شراب کہ موسم خراب ہے ۔۔ ساغر صدیقی

لا اک خم شراب کہ موسم خراب ہے
کر کوئی انقلاب کہ موسم خراب ہے
زلفوں کو بے خودی کی ردا میں لپیٹ دے
ساقی پئے شباب کہ موسم خراب ہے
جام و سبو کے ہوش ٹھکانے نہیں رہے
مطرب اٹھا رباب کہ موسم خراب ہے
غنچوں کو اعتبار طلوع چمن نہیں
رخ سے الٹ نقاب کہ موسم خراب ہے
اے جاں ! کوئی تبسم رنگیں کی واردات
پھیکا ہے ماہتاب کہ موسم خراب ہے
ساغر صدیقی

درد کے ماروں پہ ہنستا ہے زمانہ بے خبر ۔۔ شاعر : ساغر صدیقی

درد کے ماروں پہ ہنستا ہے زمانہ بے خبر
زخم ہستی کی کسک سے ہے نشانہ بے خبر
نگہتوں کے سائے میں ٹوٹے پڑے ہیں چند پھول
بجلیوں کی یورشوں سے آشیانہ بے خبر
حسن_برہم کو نہیں حال_پریشاں سے غرض
ساز_دل کی دھڑکنوں سے ہے زمانہ بے خبر
دونوں عالم وسعت_آغوش کی تفسیر ہیں
دیکھنے میں ہے نگاہ_مجرمانہ بے خبر
آپ اپنے فن سے ناواقف ہے ساغر کی نظر
لعل و گوہر کی ضیاؤں سے خزانہ بے خبر
شاعر : ساغر صدیقی

محبت مستقل غم ہے محبت غم کا گہوارہ۔ ساغر صدیقی

محبت مستقل غم ہے محبت غم کا گہوارہ
جو آنسو رنگ لے آئے وہی دامن کا شہ پارہ
جسے ارماں کا خوں دے کر بنام آرزو سینچا
خدا جانے کہاں ہے جہان زندگی آرا
مرا ذوق خریداری ہے اک جنس گراں مایہ
کبھی پھولوں کا شیدائی کبھی کانٹوں کا بنجارہ
جہاں منصب عطا ہوتے ہیں بے فکر و فراست بھی
وہاں ہر جستجو جھوٹی وہاں ہر عزم ناکارہ
بسا اوقات چھو لیتی ہے دامن کبریائی کا
تمہاری جنبش ابرو مری تخلیق آوارہ
نجانے محتسب کیوں میکدے کا نام دیتے ہیں
جہاں کچھ آدمی کرتے ہیں اپنے درد کا چارہ
ترے گیسو خیالوں کی گرفت ناز سے گزرے
کہ جیسے ایک جوگی بن میں لہراتا ہے دو تارہ
پلٹ آئے ہیں شاید انقلاب دید کے لمحے
نظر کی وسعتوں میں ڈوبتا جاتا ہے نظارہ
فقط اک بات میں ٹوٹا ہوا ساغر اٹھانے سے
لرز اٹھا ہے اے یزداں تری عظمت کا مینارہ
ساغر صدیقی

ساغرصدیقی کے خوبصورت اشعار

ساغرصدیقی کے خوبصورت اشعار
یہ دستور وفا صدیوں سے رائج ہے زمانے میں
صدائے قرب دی جن کو انہی کو دور دیکھا ہے
کہیں لخت جگر کھانے سے ساغر بھوک مٹتی ہے ؟
لہو کے گھونٹ پی کر بھی کوئی مخمور دیکھا ہے ؟
وہاں چاندنی کے قدم ڈولتے ہیں
جہاں تیرے نقش قدم سو رہے ہیں
ہر اک ذہن میں ہے خدائی کا دعوی
ہر اک آستیں میں صنم سو رہے ہیں
دوش ساغر نے تکیہ بنایا انہیں
جتنے پتھر گرے ان کی دیوار سے
بکی کس کی عصمت ، لٹی کس کی دنیا
تمہیں کیا ؟ تم اپنی دوکانیں سجاؤ
ہمیں فرصت آہ تک نہیں ہے
انہیں یہ تکلف کہ نغمے سناؤ
اے پاسبان گلشن تجھ کو خبر نہیں ہے
شعلے بھڑک رہے ہیں پھولوں کی انجمن میں
ہائے تخلیق کی کار پردازیاں
خاک سی چیز کو کہہ دیا آدمی
کھل گئے جنتوں کے وہاں زائچے
جھوم کر دو قدم جب چلا آدمی
کچھ فرشتوں کی تقدیس کے واسطے 
سہہ گیا آدمی کی جفا آدمی

منگل، 8 ستمبر، 2015

یا رحمتہ العالمیں ۔ مظفر وارثی کا خوبسورت نعتیہ کلام

یا رحمتہ العالمیں 
الہام جامہ ہے تیرا
قرآں عمامہ ہے تیرا
منبر تیرا عرشِ بریں
یا رحتمہ العالمیں

آئینہء رحمت بدن
سانسیں چراغِ علم و فن
قربِ الٰہی تیرا گھر
الفقر و فخری تیرا دھن
خوشبو تیری جوئے کرم
آنکھیں تیری بابِ حرم
نُورِ ازل تیری جبیں
یا رحمتہ العالمیں

تیری خموشی بھی اذاں
نیندیں بھی تیری رتجگے
تیری حیاتِ پاک کا
ہر لمحہ پیغمبر لگے
خیرالبشر رُتبہ تیرا
آوازِ حق خطبہ تیرا
آفاق تیرے سامعیں
یا رحمتہ العالمیں

قبضہ تیری پرچھائیں کا
بینائی پر ادراک پر
قدموں کی جنبش خاک پر
اور آہٹیں افلاک پر
گردِ سفر تاروں کی ضَو
مرقب براقِ تیز رَو
سائیس جبرئیلِ امیں
یا رحمتہ العالمیں

تو آفتابِ غار بھی
تو پرچم ِ یلغار بھی
عجز و وفا بھی ، پیار بھی
شہ زور بھی سالار بھی
تیری زرہ فتح و ظفر
صدق و وفا تیری سپر
تیغ و تبر صبر و یقیں
یا رحمۃ للعالمیں

پھر گڈریوں کو لعل دے
جاں پتھروں میں ڈال دے
حاوی ہوں مستقبل پہ ہم
ماضی سا ہم کو حال دے
دعویٰ ہے تیری چاہ کا
اس امتِ گُم راہ کا
تیرے سوا کوئی نہیں
یا رحمتہ العالمیں

شاعر: مظفر وارثی

رات آئی ہے شبّیر پہ یلغارِ بلا ہے ۔ سلام یا حسین علیہ السلام ۔ شاعر فیض احمد فیض

سلام یا حسین علیہ السلام
رات آئی ہے شبّیر پہ یلغارِ بلا ہے
ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے
مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے
مُشفِق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے

تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے
یہ خانۂ شبّیر کی ویرانی کی شب ہے

دشمن کی سپہ خواب میں‌ مدہوش پڑی تھی
پل بھر کو کسی کی نہ اِدھر آنکھ لگی تھی
ہر ایک گھڑی آج قیامت کی گھڑی تھی
یہ رات بہت آلِ محمّد پہ کڑی تھی

رہ رہ کے بُکا اہلِ‌حرم کرتے تھے ایسے
تھم تھم کے دِیا آخرِ شب جلتا ہے جیسے

اِک گوشے میں‌ ان سوختہ سامانوں‌ کے سالار
اِن خاک بسر، خانماں ویرانوں‌ کے سردار
تشنہ لب و درماندہ و مجبور و دل افگار
اِس شان سے بیٹھے تھے شہِ لشکرِ احرار

مسند تھی، نہ خلعت تھی، نہ خدّام کھڑے تھے
ہاں‌ تن پہ جدھر دیکھیے سو زخم سجے تھے

کچھ خوف تھا چہرے پہ نہ تشویش ذرا تھی
ہر ایک ادا مظہرِ تسلیم و رضا تھی
ہر ایک نگہ شاہدِ اقرارِ وفا تھی
ہر جنبشِ لب منکرِ دستورِ جفا تھی

پہلے تو بہت پیار سے ہر فرد کو دیکھا
پھر نام خدا کا لیا اور یوں ہوئے گویا

الحمد قریب آیا غمِ عشق کا ساحل
الحمد کہ اب صبحِ شہادت ہوئی نازل
بازی ہے بہت سخت میانِ حق و باطل
وہ ظلم میں‌کامل ہیں تو ہم صبر میں ‌کامل

بازی ہوئی انجام، مبارک ہو عزیزو
باطل ہُوا ناکام، مبارک ہو عزیزو

پھر صبح کی لَو آئی رخِ پاک پہ چمکی
اور ایک کرن مقتلِ خونناک پہ چمکی
نیزے کی انی تھی خس و خاشاک پہ چمکی
شمشیر برہنہ تھی کہ افلاک پہ چمکی

دم بھر کے لیے آئینہ رُو ہو گیا صحرا
خورشید جو ابھرا تو لہو ہو گیا صحرا

پر باندھے ہوئے حملے کو آئی صفِ‌ اعدا
تھا سامنے اِک بندۂ حق یکّہ و تنہا
ہر چند کہ ہر اک تھا اُدھر خون کا پیاسا
یہ رُعب کا عالم کہ کوئی پہل نہ کرتا

کی آنے میں ‌تاخیر جو لیلائے قضا نے
خطبہ کیا ارشاد امامِ شہداء نے

فرمایا کہ کیوں درپئے ‌آزار ہو لوگو
حق والوں ‌سے کیوں ‌برسرِ پیکار ہو لوگو
واللہ کہ مجرم ہو، گنہگار ہو لوگو
معلوم ہے کچھ کس کے طرفدار ہو لوگو

کیوں ‌آپ کے آقاؤں‌ میں ‌اور ہم میں ‌ٹھنی ہے
معلوم ہے کس واسطے اس جاں پہ بنی ہے

سَطوت نہ حکومت نہ حشم چاہیئے ہم کو
اورنگ نہ افسر، نہ عَلم چاہیئے ہم کو
زر چاہیئے، نے مال و دِرم چاہیئے ہم کو
جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہیئے ہم کو

سرداری کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے
اِک حرفِ یقیں، دولتِ ایماں‌ ہمیں‌ بس ہے

طالب ہیں ‌اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار
باطل کے مقابل میں‌ صداقت کے پرستار
انصاف کے، نیکی کے، مروّت کے طرفدار
ظالم کے مخالف ہیں‌ تو بیکس کے مددگار

جو ظلم پہ لعنت نہ کرے، آپ لعیں ہے
جو جبر کا منکر نہیں ‌وہ منکرِ‌ دیں ‌ہے

تا حشر زمانہ تمہیں مکّار کہے گا
تم عہد شکن ہو، تمہیں غدّار کہے گا
جو صاحبِ دل ہے، ہمیں ‌ابرار کہے گا
جو بندۂ‌ حُر ہے، ہمیں‌ احرار کہے گا

نام اونچا زمانے میں ‌ہر انداز رہے گا
نیزے پہ بھی سر اپنا سرافراز رہے گا

کر ختم سخن محوِ‌ دعا ہو گئے شبّیر
پھر نعرہ زناں محوِ وغا ہو گئے شبیر
قربانِ رہِ صدق و صفا ہو گئے شبیر
خیموں میں‌ تھا کہرام، جُدا ہو گئے شبیر

مرکب پہ تنِ پاک تھا اور خاک پہ سر تھا
اِس خاک تلے جنّتِ ‌فردوس کا در تھا

شاعر فیض احمد فیض

پیر، 7 ستمبر، 2015

کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہات میں تیرا ہات نہیں . کلام: فیض احمد فیض

غزل
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہات میں تیرا ہات نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
مشکل ہے اگر حالات وہاں، دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو کوچہء جاناں میں‌کیا ایسے بھی حالات نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان توآنی جانی ہے ، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
میدانِ وفا دربار نہیں یاں‌ نام و نسب کی پوچھ کہاں
عاشق تو کسی کا نام نہیں، کچھ عشق کسی کی ذات نہیں
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گرجیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں
کلام: فیض احمد فیض