اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

اتوار، 13 ستمبر، 2015

کلام محسن نقوی ۔ محسن نقوی کا خوبصورت کلام

لغزشوں سے مارا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
دونوں انساں ہیں خداتو بھی نہیں میں بھی نہیں
توجفا کی ، میں وفا کی راہ پر ہیں گامزن
پیچھے مڑ کر دیکھتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
تو مجھے ، میں تجھے الزام دھرتا ہوں
اپنے من میں جھانکتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
مصلحت نے کر دیے دونوں میں پیدا اختلاف
ورنہ فطرت کا برا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
بد گمانی شہر میں کس نے پھیلا دی جبکہ
ایک دوجے سے خفا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
جرم کی نوعیتو ں میں کچھ تفاوت ہو توہو
در حقیقت پارسا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
جان محسن تو بھی تھا ضدی انا مجھ میں بھی تھی
دونوں خودسر تھے جھکا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
محسن نقوی
اس نے جب بھی مجھے دل سے پکارا محسن
میں نے تب تب یہ بتایا کہ تمھارا محسن
لوگ صدیوں کی خطاؤں‌ پہ بھی خوش بستے ہیں
ہم کو لمحوں کی وفاؤں نے اجاڑا محسن
جب آ گیا ہو یہ یقیں اب وہ نہیں آئے گا
غم اور آنسو نے دیا دل کو سہارا محسن
وہ تھا جب پاس تو جینے کو بھی دل کرتا تھا
اب تو پل بھر بھی نہیں ہوتا گزارا محسن
اس کو پانا تو مقدر کی لکیروں میں نہیں
اس کا کھونا بھی کریں کیسے گوارا محسن
محسن نقوی
میرے لیے کون سوچتا ہے
جدا جدا ہیں میرے قبیلے کے لوگ سارے
جدا جدا سب کی صورتیں ہیں
سبھی کو اپنی انا کے اندھے کنویں کی تہہ میں پڑے ہوئے
خواہشوں ک پنجر
ہوس کے ٹکڑے
حواس ریزے
ہراس کنکر تلاشنا ہیں
سبھی کو اپنے بدن کی شہ رگ میں
قطرہ قطرہ لہو کا لاوا انڈیلنا ہے
سبھی کو گزرے دنوں کے دریا کا دکھ
وراثت میں جھیلنا ہے
میرے لیے کون سوچتا ہے؟
سبھی کی اپنی ضرورتیں ہیں!
میری رگیں چھیلتی جراحت کو کون بخشے
شفا کی شبنم
مری اداسی کو کون بہلائے؟
کس کو فرصت ہے مجھ سے پوچھے
کہ میری آنکھیں گلاب کیوں ہیں؟
میری مشقت کی شاخِ عریاں پہ
سازشوں کے عذاب کیوں ہیں؟
میری ہتھیلی پہ خواب کیوں ہیں؟
مرے سفر میں سراب کیوں ہیں؟
میرے لیے کون سوچتا ہے؟
سبھی کے دل میں کدوتیں ہیں!
محسن نقوی
کیا خزانے مری جاں، ہجر کی شب یاد آئے
تیرا چہرہ، تیری آنکھیں، تیرے لب یاد آئے
ایک تو تھا جسے غربت میں پکارا دل نے
ورنہ بچھڑے ہوئے احباب تو سب یاد آئے
ہم نے ماضی کی سخاوت پہ جو پل بھر سوچا
دکھ بھی کیا کیا ہمیں یاروں کے سبب یاد آئے
پھول کھلنے کا جو موسم مرے دل میں اُترا
تیرے بخشے ہوئے کچھ زخم عجب یاد آئے
اب تو آنکھوں میں فقط دھول ہے کچھ یادوں کی
ہم اسے یاد بھی آئے ہیں تو کب یاد آئے
بھول جانے میں وہ ظالم ہے بھَلا کا ماہر
یاد آنے پہ بھی آئے تو غضب یاد آئے
یہ خنک رت یہ نئے سال کا پہلا لمحہ
دل کی خواہش ہے کہ محسن کوئی اب یاد آئے
محسن نقوی
محبتوں پہ بہت اعتماد کیا کرنا
بُھلا چکے ہیں اُسے پھر سے یاد کیا کرنا
وہ بے وفا ہی سہی اُس پہ تہمتیں کیسی
ذرا سی بات پہ اتنا فساد کیا کرنا
کچھ اس لیے بھی میں پسپا ہوا ہوں مقتل سے
کہ بہرِ مالِ غنیمت جہاد کیا کرنا
مسافتیں ہی پہن لیں تو منزلوں کے لیے
اب اعتبارِ رُخِ گردوبارکیا کرنا
نگاہ میں جو اُترتا ہے دل سے کیوں اُترے
دل و نگاہ میں پیدا تضاد کیا کرنا
میں اس لیے اُسے اب تک چھو نہ سکا محسن
وہ آہیٔنہ ہے اُسے سنگ زاد کیا کرنا
محسن نقوی
اَب کے سفر میں تشنہ لَبی نے، کیا بتلائیں، کیا کیا دیکھا؟
صحراؤں کی پیاس بجھاتے دریاؤں کو پیاسا دیکھا
شاید وہ بھی سرد رُتوں کے چاند سی قسمت لایا ہو گا
شہر کی بھِیڑ میں اکثر جس کو ہم نے تنہا تنہا دیکھا
چارہ گروں کی قَید سے چھوُٹے، تعبیریں سب راکھ ہوئی ہیں
اب کے دل میں درد وہ اُترا، اب کے خواب ہی ایسا دیکھا
رات بہت بھٹکے ہم لے کر، آنکھوں کے خالی مشکیزے
رات فرات پہ پھر دشمن کے لشکریوں کا پہرا دیکھا
درد کا تاجر بانٹ رہا تھا گلیوں میں مجروح تبسّم
دِل کی چوٹ کوئی کیا جانے، زخم تو آنکھ میں گہرا دیکھا
جس کے لیے بدنام ہوئے ہم، آپ تو اُس سے مِل کر آئے
آپ نے اُس کو کیسا پایا، آپ نے اُس کو کیسا دیکھا؟
کیسا شخص تھا زرد رُتوں کی بھیڑ میں جب بھی سامنے آیا
اُس کو دھوپ سا کھُلتا پایا، اُس کو پھول سی کھِلتا دیکھا
اَبر کی چادر تان کے جھیل میں ساتوں رنگ رچانے اُترا
موجئہ آب کی تہہ میں جانے چاند نے کس کا چہرہ دیکھا
تیرے بعد ہمارے حال کی ہر رُت آپ گواہی دے گی
ہر موسم نے اپنی آنکھ میں ایک ہی درد کا سایا دیکھا
محسنؔ بند کواڑ کے پیچھے ڈھونڈ رہی ہے، سہمی شمعیں
جیسے عُمر کے بعد ہوَا نے میرے گھر کا رستہ دیکھا
محسن نقوی
بچھڑ کے مجھ سے کبھی تُو نے یہ بھی سوچا ہے
اَدھورا چاند بھی کتنا اُداس لگتا ہے
یہ ختم وصل کا لمحہ ہے رائیگاں نہ سمجھ
کہ اِس کے بعد وہی دُوریوں کا صحرا ہے
کچھ اور دیر نہ جھڑنا اُداسیوں کے شجر
کسے خبر تیرے سائے میں کون بیٹھا ہے؟
یہ رکھ رکھاؤ محبت سکھا گئی اُس کو
وہ روٹھ کر بھی مجھے مُسکرا کے ملتا ہے
میں کس طرح تجھے دیکھوں نظر جھجکتی ہے
تیرا بدن ہے کہ یہ آئینوں کا دریا ہے؟
کچھ اِس قدر بھی تو آساں نہیں ہے عشق تیرا
یہ زہر دل میں اُتر کر ہی راس آتا ہے
میں تجھ کو پا کے بھی کھویا ہُوا سا رہتا ہُوں
کبھی کبھی تو مجھے تُو نے ٹھیک سمجھا ہے
مجھے خبر ہے کہ کیا ہے جدائیوں کا عذاب
کہ میں نے شاخ سے گُل کو بجھڑتے دیکھا ہے
میں مُسکرا بھی پڑا ہُوں تو کیوں خفا ہیں یہ لوگ
کہ پھول ٹوٹی ہُوئی قبر پر بھی کِھلتا ہے
اُسے گنوا کے مَیں زندہ ہُوں اِس طرح محسن
کہ جیسے تیز ہَوا میں چراغ جلتا ہے
محسن نقوی
شامِ غم جب بکھر گئی ہو گی
جانے کس کس کے گھر گئی ہو گی؟
اِتنی لرزاں نہ تھی چراغ کی لَو
اپنے سائے سے ڈر گئی ہو گی
چاندنی ایک شب کی مہماں تھی
صبح ہوتے ہی مَر گئی ہو گی
دیر تک وہ خفا رہے مجھ سے
دُور تک یہ خبر گئی ہو گی
ایک دریا کے رُخ بدلتے ہی
اِک ندی پھر اُتر گئی ہو گی
جس طرف وہ سفر پہ نکلا تھا
ساری رونق اُدھر گئی ہو گی
رات سورج کو دھونڈنے کے لیے
تا بہ حدِّ سحر گئی ہو گی
میری یادوں کی دھوپ چھاؤں میں
اُس کی صورت نکھر گئی ہو گی
یا تعلّق نہ نبھ سکا اس سے
یا طبیعت ہی بھر گئی ہو گی
تیری پل بھر کی دوستی محسنؔ
اُس کو بدنام کر گئی ہو گی
محسن نقوی
ہر اک جانب اداسی ہے
ابھی سوچیں تو کیا سوچیں؟
ہر اک سو، ہو کا عالم ہے
ابھی بولیں تو کیا بولیں؟
ہر اک انسان پتھر ہے
ابھی دھڑکیں تو کیا دھڑکیں؟
فضا پر نیند طاری ہے
ابھی جاگیں تو کیا جاگیں؟
ہر اک مقتل کی شہِ رگ میں
لہو کی لہر جاری ہے
ابھی دیکھیں تو کیا دیکھیں؟
ہر اک انسان کا سایہ
ابھی مٹی پہ بھاری ہے
ابھی لکھیں تو کیا لکھیں؟
محسن نقوی
ترکِ محبت کر بیٹھے ہم، ضبط محبت اور بھی ہے
ایک قیامت بیت چکی ہے، ایک قیامت اور بھی ہے
ہم نے اُسی کے درد سے اپنے سانس کا رشتہ جوڑ لیا
ورنہ شہر میں زندہ رہنے کی اِک صورت اور بھی ہے
ڈوبتا سوُرج دیکھ کے خوش ہو رہنا کس کو راس آیا
دن کا دکھ سہہ جانے والو، رات کی وحشت اور بھی ہے
صرف رتوں کے ساتھ بدلتے رہنے پر موقوف نہیں
اُس میں بچوں جیسی ضِد کرنے کی عادت اور بھی ہے
صدیوں بعد اُسے پھر دیکھا، دل نے پھر محسوس کیا
اور بھی گہری چوٹ لگی ہے، درد میں شدّت اور بھی ہے
میری بھیگتی پلکوں پر جب اُس نے دونوں ہاتھ رکھے
پھر یہ بھید کھُلا اِن اشکوں کی کچھ قیمت اور بھی ہے
اُس کو گنوا کر محسنؔ اُس کے درد کا قرض چکانا ہے
ایک اذّیت ماند پڑی ہے ایک اذّیت اور بھی ہے!
محسن نقوی
شب ڈھلی چاند بھی نکلے تو سہی
درد جو دل میں ہے چمکے تو سہی
ہم وہیں پر بسا لیں خود کو
وہ کبھی راہ میں روکے تو سہی
مجھے تنہائیوں کا خوف کیوں ہے
وہ میرے پیار کو سمجھے تو سہی
وہ قیامت ہو ،ستارہ ہوکہ دل
کچھ نہ کچھ ہجر میں ٹوٹے تو سہی
سب سے ہٹ کر منانا ہے اُسے
ہم سے اک بار وہ روٹھے تو سہی
اُس کی نفرت بھی محبت ہو گی
میرے بارے میں وہ سوچے تو سہی
دل اُسی وقت سنبھل جائے گا
دل کا احوال وہ پوچھے تو سہی
اُس کے قدموں میں بچھا دوں آنکھیں
میری بستی سے وہ گزرے تو سہی
میرا جسم آئینہ خانہ ٹھہرے
میری جانب کبھی دیکھے تو سہی
اُس کے سب جھوٹ بھی سچ ہیں محسن
شرط اتنی ہے کہ، بولے تو سہی
محسن نقوی

محسن نقوی کی منتخب شاعری

چھو جائے ہوا جس سے تو خوشبو تیری آئے
جاتے ہوئے اک زخم تو ایسا مجھے دینا
اک درد کا میلہ ہے ، لگا ہے دل و جاں‌میں
اک روح کی آواز کا رستہ مجھے دینا
اک تازہ غزل اذنِ سخن مانگ رہی ہے
تم اپنا مہکتا ہوا لہجہ مجھے دینا
وہ مجھ سے کہیں بڑھ کے مصیبت میں تھا محسن
رہ رہ کے مگر اس کا دلاسا مجھے دینا
محسن نقوی
اب اے میرے احساسِ جنوں کیا مجھے دینا
دریا اسے بخشا ہے تو صحرا مجھے دینا
تم اپنا مکاں جب کرو تقسیم تو یارو
گرتی ہوئی دیوار کا سایہ مجھے دینا
جب وقت کی مجروح ہوئی شاخ سنبھالو
اس شاخ سے ٹوٹا ہوا لمحہ مجھے دینا
تم میرا بدن اوڑھ کے پھر تے رہو لیکن
ممکن ہو تو اک دن میرا چہرہ مجھے دینا
محسن نقوی
شدتِ غم میں بھی زندہ ہوں تو حیرت کیسی؟
کچھ دِیے تُند ہواؤں سے بھی لڑ جاتے ہیں
وہ بھی کیا لوگ ہیں محسن جو وفا کی خاطر!
خود تراشیدہ اُصولوں پہ بھی اَڑ جاتے ہیں
محسن نقویاُجاڑ رُت کو گلابی بنائے رکھتی ہے
ہماری آنکھ تیری دید سے وضو کر کے
کوئی تو حبسِ ہوَا سے یہ پوچھتا محسنؔ
مِلا ہے کیا اُسے کلیوں کو بے نمو کر کے
محسن نقوی
وفا میں اب یہ ہُنر اختیار کرنا ہے
وہ سچ کہے نا کہے اعتبار کرنا ہے
یہ تجھ کو جاگتے رہنے کا شوق کب سے ہوا؟
مجھے تو خیر تیرا انتظار کرنا ہے
ہوا کی زد میں جلانے ہیں آنسوؤں کے چراغ
کبھی یہ جشن سرِ راہگزار کرنا ہے
وہ مسکرا کے نٔے وسوسوں میں ڈال گیا
خیال تھا کہ اُسے شرمسار کرنا ہے
مثالِ شاخِ برہنہ خزاں کی رُت میں کبھی
خود اپنے جسم کو بے برگ وبار کرنا ہے
ترے فراق مین دن کس طرح کٹیں اپنے
کہ شغلِ شب تو ستارے شمار کرنا ہے
چلو یہ اشک ہی موتی سمجھ کے بیچ آئیں
کسی طرح تو ہمیں روزگار کرنا ہے
کبھی تو دل میں چھپے زخم بھی نمایاں ہوں !
قبا سمجھ کے بدن کو تار تار کرنا ہے
خدا خیر یہ کوئی ضد کہ شوق ہے محسن
خود اپنی جان کے دُشمن سے پیار کرنا ہے
محسن نقوی
راہِ وفا میں اذیتِ شناسائیاں نہ گئیں
کسی بھی رت میں ہماری اداسیاں نہ گئیں
تنی ہے ابر کی چادر بھی آسماں پہ مگر
شعاعِ مہر ، تیری بے لباسیاں نہ گئیں
تیرے قریب بھی رہ کر تجھے تلاش کروں
محبتوں میں میری بدحواسیاں نہ گئیں
خدا خبر کہاں کونجوں کے قافلے اترے
سمندر کی طرف بھی تو پیاسیاں نہ گئیں
خزاں میں بھی تو مہکتی غزل پہن کے ملا
مزاجِ یار تیری خوش لباسیاں نہ گئیں
بسنت رت میں بھی مندر اداس تھے محسن
کہ دیوتاؤں سے ملنے کو داسیاں نہ گئیں
محسن نقوی
باغی میں آدمی سے نہ منکر خدا کا تھا
درپیش مسئلہ میری اپنی انا کا تھا
گم سم کھڑا تھا ایک شجر دشتِ خوف میں
شائید وہ منتظر کسی آندھی ہوا کا تھا
اپنے دھوئیں کو چھوڑ گیا آسمان پر
بجھتے ہوئے دیئے میں غرور انتہا کا تھا
دیکھا تو وہ حسین لگا سارے شہر میں
سوچا تو وہ ذہین بھی ظالم بلا کا تھا
لہرا رہا تھا کل جو سرِ شاخ بے لباس
دامن کا تار تھا کہ وہ پرچم صبا کا تھا
اس کو غلافِ روح میں رکھا سنبھال کر
محسن وہ زخم بھی تو کسی آشنا کا تھا
محسن نقوی
اسی کو صبح مسافت نے چُور کر ڈالا
وہ آفتاب جسے دوپہر میں ڈھلنا تھا
عجب نصیب تھا محسن کہ بعد مرگ مجھے
چراغ بن کے خود اپنی لحد پہ جلنا تھا
محسن نقوی
میرے بس میں ہو تو کبھی کہیں
کوئی شہر ایسا بساؤں میں
جہاں فاختاؤں کی پھڑپھڑاہٹ سے نغمہءِ زارِ حیات میں
جھنجھناتی سانسوں کی جھانجھریں جو چھنک اٹھیں
تو دھنک کے رنگوں میں بھیگ جائیں حواس تک
جہاں چاند، ماند نہ ہو کبھی، جہاں چاندنی کی ردا بنے
میری بانجھ دھرتی کے باسیوں کا لباس تک
جہاں صرف حکمِ یقیں چلے، جہاں بے نشاں ہو قیاس تک
جہاں آدمیت کے ناطق و لب پہ نہ شہرِ یار کا خوف ہو
جہاں سر سرائے نہ آدمی کی رگوں میں کوئی ہراس تک
جہاں وہم نہ ہو، نہ دلوں میں وہم کا سہم ہو
جہاں سچ کو سچ سے ہو واسطہ
جہاں جگنوؤں کو ہوا دیکھاتی ہو راستہ
جہاں خوشبوؤں سے بدلتی رت کو حسد نہ ہو
جہاں پستیوں سے بلندیوں کو بھی قد نہ ہو
جہاں خواب آنکھوں جگمگائیں تو
جسم و جاں کے سبھی دریچوں میں تیرگی کا گزر نہ ہو
کوئی رات ایسی بسر نہ ہو کہ بشر کو اپنی خبر نہ ہو
جہاں داغ داغ سحر نہ ہو
جہاں کشتیاں ہوں رواں دواں تو سمندروں میں بھنور نہ ہو
جہاں برگ و بار سے اجنبی کوئی شاخ ، کوئی شجر نہ ہو
جہاں چہچہاتے ہوئے پرندوں کو بارشوں کے عذاب کا ڈر نہ ہو
میرے بس میں ہو تو کبھی کہیں
کوئی شہر ایسا بساؤں میں
جہاں برف برف محبتوں پہ غمِ جہاں کا اثر نہ ہو
راہ و رسمِ دنیا کی بندشیں ، غمِ ذات کے سبھی ذائقے
سمِ کائنات کی تلخیاں، کسی آنکھ کو بھی نہ چھو سکیں
جہاں میرے سانس کی تازگی تیری چاہتوں کے کنول میں ہو
تیرا حسن میری غزل میں ہو
جہاں کائنات کی اک صدف، شب و روز کےکسی پل میں‌ہو
جہاں نوحہءِ غمِ زندگی، میری ہچکیوں سے عیاں نہ ہو
جہاں لوحِ خاک پہ عمر بھر کسی بے گناہ کے خون کا
کوئی داغ کوئی نشاں نہ ہو
کوئی شہر ایسا کبھی کہیں
جہاں دھوپ چھاؤں گلے ملیں
جہاں بانجھ رت میں بھی گل کھلیں
جہاں چاہتوں کے ہجوم میں کبھی گیت امن کے گاؤں میں
جہاں زندگی کا رجز پڑہوں ، جہاں بے خلل گنگناؤں میں
جہاں موج موج کی اوٹ میں، تو کرن بنے، مسکراؤں میں
میرے بس میں ہو تو کبھی کہیں
کوئی شہر ایسا بساؤں میں
محسن نقوی
کبھی جو چھڑ گئی یادِ رفتگاں محسن
بکھر گئی ہیں نگاہیں کہاں کہاں محسن
ہوا نے راکھ اُ ڑائی تو دل کو یاد آیا
کہ جل بجھیں میرے خوابوں کی بستیاں محسن
کھنڈر ہے عہدِ گزشتہ نہ چھو نہ چھیڑ اسے
کھلیں تو بند نہ ہو اس کی کھڑکیاں محسن
بجھا ہے کون ستارا کہ اپنی آنکھ کے ساتھ
ہوئے ہیں سارے مناظر دھواں دھواں محسن
نہیں کہ اس نے گنوائے ہیں ماہ و سال اپنے
تمام عمر کٹی یوں بھی رائیگاں محسن
ملا تو اور بھی تقسیم کر گیا مجھ کو
سمیٹنا تھیں جسے میرے کرچیاں محسن
کہیں سے اس نے بھی توڑا ہے خود سے ربطِ وفا
کہیں سے بھول گیا میں بھی داستاں محسن
محسن نقوی
فنکار ہے تو ہاتھ میں سورج سجا کے لا
بجھتا ہوا دیا نہ مقابل ہوا کے لا
دریا کا انتقام ڈبو دے نہ گھر تیرا
ساحل سے روز روز نہ کنکر اٹھا کے لا
اب اختتام کو ہے سخی حرفِ التماس
کچھ ہے تو اب وہ سامنے دستِ دعا کے لا
پیامِ وفا کے باندھ مگر سوچ سوچ کر
اس ابتدا میں یوں نہ سخن انتہا کے لا
آرائشِ جراحتِ یاراں کی بزم ہے
جو زخم دل میں ہیں سبھی تن پر سجا کے لا
تھوڑی سی اور موج میں آ اے ہوائے گل
تھوڑی سی اس کے جسم کی خوشبو چرا کے لا
محسن اب اس کا نام ہے سب کی زبان پر
کس نے کہا کہ اس کو غزل میں سجا کے لا
محسن نقوی
اب اے میرے اِحساسِ جنوں کیا مجھے دینا
دریا اُسے بخشا ہے تو صحرا مجھے دینا
تم میرا مکاں جب کرو تقسیم تو یارو ۔۔
گرتی ہوئی دیوار کا سایہ مجھے دینا!
جب وقت کی مرجھائی ہوئی شاخ سنبھالو
اُس شاخ سے ٹوٹا ہوا لمحہ مجھے دینا
تم میرا بدن اوڑھ کے پھرتے رہو ، لیکن
ممکن ہو تو اِک دن مِرا چہرہ مجھے دینا
چھو جائے ہوا جس سے تو خوشبو تیری آئے
جاتے ہوئے اِک زخم تو ایسا مجھے دینا
شب بھر کی مسافت ہے گواہی کی طلبگار
اے صبحِ صفر ۔۔اپنا ستارہ مجھے دینا
اِک درد کا میلہ کہ لگا ہے دل و جان میں
اِک روح کی آواز کہ "رستہ مجھے دینا"
اِک تازہ غزل اذنِ سخن مانگ رہی ہے
تم اپنا مہکتا ہوا لہجہ مجھے دینا
وہ مجھ سے کہیں بڑھ کے مصیبت میں تھا محسن
رہ رہ کے مگر اُس کا دِلاسہ مجھے دینا
محسن نقوی

جمعہ، 11 ستمبر، 2015

وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا، اب اس کا حال بتائیں کیا . غزل

وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا، اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچا شعر سنائیں کیا

اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے، تا دیر اسے دہرائیں کیا
وہ زہر جو دل میں اتار لیا، پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا

اک آگ غمِ تنہائی کی، جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو، پھر دامنِ دل کو بچائیں کیا

پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں، یہ شمعیں بجھنے والی ہیں
ہم خود بھی کسی سے سوالی ہیں، اس بات پہ ہم شرمائیں کیا

ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے، ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
بے جذبۂ شوق سنائیں کیا، کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا
اظہر نفیس

بے خُود کِیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ​ . کلام حضرت بیدم شاہ وارثی


بے خُود کِیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ​
آ دِل میں تُجھے رکھ لُوں اے جلوہ جَانَانَہ​

کِیوں آنکھ مِلائی تِھی کیوں آگ لگائی تِھی​
اب رُخ کو چُھپا بیٹھے کر کے مُجھے دِیوانہ​

اِتنا تو کرم کرنا اے چِشمِ کریمانہ​
جب جان لبوں پر ہو تُم سامنے آ جانا​

اب موت کی سختِی تو برداشت نہیں ہوتِی​
تُم سامنے آ بیٹھو دم نِکلے گا آسانہ​

دُنیا میں مُجھے اپنا جو تُم نے بنایا ہے​
محشر میں بِھِی کہہ دینا یہ ہے مرا دیوانہ​

جاناں تُجھے مِلنے کی تدبِیر یہ سوچِی ہے​
ہم دِل میں بنا لیں گے چھوٹا سا صنم خانہ​

میں ہوش حواس اپنے اِس بات پہ کھو بیٹھا​
تُو نے جو کہا ہنس کے یہ ہے میرا دیوانہ​

پینے کو تو پِی لُوں گا پر عَرض ذرّا سی ہے​
اجمیر کا ساقِی ہو بغداد کا میخانہ​

کیا لُطف ہو محشر میں شِکوے میں کیے جاوں​
وہ ہنس کے یہ فرمائیں دیوانہ ہے دیوانہ​

جِی چاہتا ہے تحفے میں بھِیجُوں اُنہیں آنکھیں​
درشن کا تو درشن ہو نذرانے کا نذرانَہ​

بیدمؔ میری قِسمت میں سجدے ہیں اُسِی دّر کے​
چُھوٹا ہے نہ چُھوٹے گا سنگِ درِّ جَانَانَہ​
بیدم شاہ وارثی

لا اک خم شراب کہ موسم خراب ہے ۔۔ ساغر صدیقی

لا اک خم شراب کہ موسم خراب ہے
کر کوئی انقلاب کہ موسم خراب ہے
زلفوں کو بے خودی کی ردا میں لپیٹ دے
ساقی پئے شباب کہ موسم خراب ہے
جام و سبو کے ہوش ٹھکانے نہیں رہے
مطرب اٹھا رباب کہ موسم خراب ہے
غنچوں کو اعتبار طلوع چمن نہیں
رخ سے الٹ نقاب کہ موسم خراب ہے
اے جاں ! کوئی تبسم رنگیں کی واردات
پھیکا ہے ماہتاب کہ موسم خراب ہے
ساغر صدیقی

درد کے ماروں پہ ہنستا ہے زمانہ بے خبر ۔۔ شاعر : ساغر صدیقی

درد کے ماروں پہ ہنستا ہے زمانہ بے خبر
زخم ہستی کی کسک سے ہے نشانہ بے خبر
نگہتوں کے سائے میں ٹوٹے پڑے ہیں چند پھول
بجلیوں کی یورشوں سے آشیانہ بے خبر
حسن_برہم کو نہیں حال_پریشاں سے غرض
ساز_دل کی دھڑکنوں سے ہے زمانہ بے خبر
دونوں عالم وسعت_آغوش کی تفسیر ہیں
دیکھنے میں ہے نگاہ_مجرمانہ بے خبر
آپ اپنے فن سے ناواقف ہے ساغر کی نظر
لعل و گوہر کی ضیاؤں سے خزانہ بے خبر
شاعر : ساغر صدیقی

محبت مستقل غم ہے محبت غم کا گہوارہ۔ ساغر صدیقی

محبت مستقل غم ہے محبت غم کا گہوارہ
جو آنسو رنگ لے آئے وہی دامن کا شہ پارہ
جسے ارماں کا خوں دے کر بنام آرزو سینچا
خدا جانے کہاں ہے جہان زندگی آرا
مرا ذوق خریداری ہے اک جنس گراں مایہ
کبھی پھولوں کا شیدائی کبھی کانٹوں کا بنجارہ
جہاں منصب عطا ہوتے ہیں بے فکر و فراست بھی
وہاں ہر جستجو جھوٹی وہاں ہر عزم ناکارہ
بسا اوقات چھو لیتی ہے دامن کبریائی کا
تمہاری جنبش ابرو مری تخلیق آوارہ
نجانے محتسب کیوں میکدے کا نام دیتے ہیں
جہاں کچھ آدمی کرتے ہیں اپنے درد کا چارہ
ترے گیسو خیالوں کی گرفت ناز سے گزرے
کہ جیسے ایک جوگی بن میں لہراتا ہے دو تارہ
پلٹ آئے ہیں شاید انقلاب دید کے لمحے
نظر کی وسعتوں میں ڈوبتا جاتا ہے نظارہ
فقط اک بات میں ٹوٹا ہوا ساغر اٹھانے سے
لرز اٹھا ہے اے یزداں تری عظمت کا مینارہ
ساغر صدیقی

ساغرصدیقی کے خوبصورت اشعار

ساغرصدیقی کے خوبصورت اشعار
یہ دستور وفا صدیوں سے رائج ہے زمانے میں
صدائے قرب دی جن کو انہی کو دور دیکھا ہے
کہیں لخت جگر کھانے سے ساغر بھوک مٹتی ہے ؟
لہو کے گھونٹ پی کر بھی کوئی مخمور دیکھا ہے ؟
وہاں چاندنی کے قدم ڈولتے ہیں
جہاں تیرے نقش قدم سو رہے ہیں
ہر اک ذہن میں ہے خدائی کا دعوی
ہر اک آستیں میں صنم سو رہے ہیں
دوش ساغر نے تکیہ بنایا انہیں
جتنے پتھر گرے ان کی دیوار سے
بکی کس کی عصمت ، لٹی کس کی دنیا
تمہیں کیا ؟ تم اپنی دوکانیں سجاؤ
ہمیں فرصت آہ تک نہیں ہے
انہیں یہ تکلف کہ نغمے سناؤ
اے پاسبان گلشن تجھ کو خبر نہیں ہے
شعلے بھڑک رہے ہیں پھولوں کی انجمن میں
ہائے تخلیق کی کار پردازیاں
خاک سی چیز کو کہہ دیا آدمی
کھل گئے جنتوں کے وہاں زائچے
جھوم کر دو قدم جب چلا آدمی
کچھ فرشتوں کی تقدیس کے واسطے 
سہہ گیا آدمی کی جفا آدمی