لغزشوں سے مارا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
دونوں انساں ہیں خداتو بھی نہیں میں بھی نہیں
توجفا کی ، میں وفا کی راہ پر ہیں گامزن
پیچھے مڑ کر دیکھتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
تو مجھے ، میں تجھے الزام دھرتا ہوں
اپنے من میں جھانکتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
مصلحت نے کر دیے دونوں میں پیدا اختلاف
ورنہ فطرت کا برا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
بد گمانی شہر میں کس نے پھیلا دی جبکہ
ایک دوجے سے خفا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
جرم کی نوعیتو ں میں کچھ تفاوت ہو توہو
در حقیقت پارسا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
جان محسن تو بھی تھا ضدی انا مجھ میں بھی تھی
دونوں خودسر تھے جھکا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
محسن نقوی
دونوں انساں ہیں خداتو بھی نہیں میں بھی نہیں
توجفا کی ، میں وفا کی راہ پر ہیں گامزن
پیچھے مڑ کر دیکھتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
تو مجھے ، میں تجھے الزام دھرتا ہوں
اپنے من میں جھانکتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
مصلحت نے کر دیے دونوں میں پیدا اختلاف
ورنہ فطرت کا برا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
بد گمانی شہر میں کس نے پھیلا دی جبکہ
ایک دوجے سے خفا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
جرم کی نوعیتو ں میں کچھ تفاوت ہو توہو
در حقیقت پارسا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
جان محسن تو بھی تھا ضدی انا مجھ میں بھی تھی
دونوں خودسر تھے جھکا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
محسن نقوی
اس نے جب بھی مجھے دل سے پکارا محسن
میں نے تب تب یہ بتایا کہ تمھارا محسن
لوگ صدیوں کی خطاؤں پہ بھی خوش بستے ہیں
ہم کو لمحوں کی وفاؤں نے اجاڑا محسن
جب آ گیا ہو یہ یقیں اب وہ نہیں آئے گا
غم اور آنسو نے دیا دل کو سہارا محسن
وہ تھا جب پاس تو جینے کو بھی دل کرتا تھا
اب تو پل بھر بھی نہیں ہوتا گزارا محسن
اس کو پانا تو مقدر کی لکیروں میں نہیں
اس کا کھونا بھی کریں کیسے گوارا محسن
محسن نقوی
میرے لیے کون سوچتا ہے
جدا جدا ہیں میرے قبیلے کے لوگ سارے
جدا جدا سب کی صورتیں ہیں
سبھی کو اپنی انا کے اندھے کنویں کی تہہ میں پڑے ہوئے
خواہشوں ک پنجر
ہوس کے ٹکڑے
حواس ریزے
ہراس کنکر تلاشنا ہیں
سبھی کو اپنے بدن کی شہ رگ میں
قطرہ قطرہ لہو کا لاوا انڈیلنا ہے
سبھی کو گزرے دنوں کے دریا کا دکھ
وراثت میں جھیلنا ہے
میرے لیے کون سوچتا ہے؟
سبھی کی اپنی ضرورتیں ہیں!
میری رگیں چھیلتی جراحت کو کون بخشے
شفا کی شبنم
مری اداسی کو کون بہلائے؟
کس کو فرصت ہے مجھ سے پوچھے
کہ میری آنکھیں گلاب کیوں ہیں؟
میری مشقت کی شاخِ عریاں پہ
سازشوں کے عذاب کیوں ہیں؟
میری ہتھیلی پہ خواب کیوں ہیں؟
مرے سفر میں سراب کیوں ہیں؟
میرے لیے کون سوچتا ہے؟
سبھی کے دل میں کدوتیں ہیں!
محسن نقوی
کیا خزانے مری جاں، ہجر کی شب یاد آئے
تیرا چہرہ، تیری آنکھیں، تیرے لب یاد آئے
ایک تو تھا جسے غربت میں پکارا دل نے
ورنہ بچھڑے ہوئے احباب تو سب یاد آئے
ہم نے ماضی کی سخاوت پہ جو پل بھر سوچا
دکھ بھی کیا کیا ہمیں یاروں کے سبب یاد آئے
پھول کھلنے کا جو موسم مرے دل میں اُترا
تیرے بخشے ہوئے کچھ زخم عجب یاد آئے
اب تو آنکھوں میں فقط دھول ہے کچھ یادوں کی
ہم اسے یاد بھی آئے ہیں تو کب یاد آئے
بھول جانے میں وہ ظالم ہے بھَلا کا ماہر
یاد آنے پہ بھی آئے تو غضب یاد آئے
یہ خنک رت یہ نئے سال کا پہلا لمحہ
دل کی خواہش ہے کہ محسن کوئی اب یاد آئے
محسن نقوی
محبتوں پہ بہت اعتماد کیا کرنا
بُھلا چکے ہیں اُسے پھر سے یاد کیا کرنا
وہ بے وفا ہی سہی اُس پہ تہمتیں کیسی
ذرا سی بات پہ اتنا فساد کیا کرنا
کچھ اس لیے بھی میں پسپا ہوا ہوں مقتل سے
کہ بہرِ مالِ غنیمت جہاد کیا کرنا
مسافتیں ہی پہن لیں تو منزلوں کے لیے
اب اعتبارِ رُخِ گردوبارکیا کرنا
نگاہ میں جو اُترتا ہے دل سے کیوں اُترے
دل و نگاہ میں پیدا تضاد کیا کرنا
میں اس لیے اُسے اب تک چھو نہ سکا محسن
وہ آہیٔنہ ہے اُسے سنگ زاد کیا کرنا
محسن نقوی
اَب کے سفر میں تشنہ لَبی نے، کیا بتلائیں، کیا کیا دیکھا؟
صحراؤں کی پیاس بجھاتے دریاؤں کو پیاسا دیکھا
شاید وہ بھی سرد رُتوں کے چاند سی قسمت لایا ہو گا
شہر کی بھِیڑ میں اکثر جس کو ہم نے تنہا تنہا دیکھا
چارہ گروں کی قَید سے چھوُٹے، تعبیریں سب راکھ ہوئی ہیں
اب کے دل میں درد وہ اُترا، اب کے خواب ہی ایسا دیکھا
رات بہت بھٹکے ہم لے کر، آنکھوں کے خالی مشکیزے
رات فرات پہ پھر دشمن کے لشکریوں کا پہرا دیکھا
درد کا تاجر بانٹ رہا تھا گلیوں میں مجروح تبسّم
دِل کی چوٹ کوئی کیا جانے، زخم تو آنکھ میں گہرا دیکھا
جس کے لیے بدنام ہوئے ہم، آپ تو اُس سے مِل کر آئے
آپ نے اُس کو کیسا پایا، آپ نے اُس کو کیسا دیکھا؟
کیسا شخص تھا زرد رُتوں کی بھیڑ میں جب بھی سامنے آیا
اُس کو دھوپ سا کھُلتا پایا، اُس کو پھول سی کھِلتا دیکھا
اَبر کی چادر تان کے جھیل میں ساتوں رنگ رچانے اُترا
موجئہ آب کی تہہ میں جانے چاند نے کس کا چہرہ دیکھا
تیرے بعد ہمارے حال کی ہر رُت آپ گواہی دے گی
ہر موسم نے اپنی آنکھ میں ایک ہی درد کا سایا دیکھا
محسنؔ بند کواڑ کے پیچھے ڈھونڈ رہی ہے، سہمی شمعیں
جیسے عُمر کے بعد ہوَا نے میرے گھر کا رستہ دیکھا
محسن نقوی
میں نے تب تب یہ بتایا کہ تمھارا محسن
لوگ صدیوں کی خطاؤں پہ بھی خوش بستے ہیں
ہم کو لمحوں کی وفاؤں نے اجاڑا محسن
جب آ گیا ہو یہ یقیں اب وہ نہیں آئے گا
غم اور آنسو نے دیا دل کو سہارا محسن
وہ تھا جب پاس تو جینے کو بھی دل کرتا تھا
اب تو پل بھر بھی نہیں ہوتا گزارا محسن
اس کو پانا تو مقدر کی لکیروں میں نہیں
اس کا کھونا بھی کریں کیسے گوارا محسن
محسن نقوی
میرے لیے کون سوچتا ہے
جدا جدا ہیں میرے قبیلے کے لوگ سارے
جدا جدا سب کی صورتیں ہیں
سبھی کو اپنی انا کے اندھے کنویں کی تہہ میں پڑے ہوئے
خواہشوں ک پنجر
ہوس کے ٹکڑے
حواس ریزے
ہراس کنکر تلاشنا ہیں
سبھی کو اپنے بدن کی شہ رگ میں
قطرہ قطرہ لہو کا لاوا انڈیلنا ہے
سبھی کو گزرے دنوں کے دریا کا دکھ
وراثت میں جھیلنا ہے
میرے لیے کون سوچتا ہے؟
سبھی کی اپنی ضرورتیں ہیں!
میری رگیں چھیلتی جراحت کو کون بخشے
شفا کی شبنم
مری اداسی کو کون بہلائے؟
کس کو فرصت ہے مجھ سے پوچھے
کہ میری آنکھیں گلاب کیوں ہیں؟
میری مشقت کی شاخِ عریاں پہ
سازشوں کے عذاب کیوں ہیں؟
میری ہتھیلی پہ خواب کیوں ہیں؟
مرے سفر میں سراب کیوں ہیں؟
میرے لیے کون سوچتا ہے؟
سبھی کے دل میں کدوتیں ہیں!
محسن نقوی
کیا خزانے مری جاں، ہجر کی شب یاد آئے
تیرا چہرہ، تیری آنکھیں، تیرے لب یاد آئے
ایک تو تھا جسے غربت میں پکارا دل نے
ورنہ بچھڑے ہوئے احباب تو سب یاد آئے
ہم نے ماضی کی سخاوت پہ جو پل بھر سوچا
دکھ بھی کیا کیا ہمیں یاروں کے سبب یاد آئے
پھول کھلنے کا جو موسم مرے دل میں اُترا
تیرے بخشے ہوئے کچھ زخم عجب یاد آئے
اب تو آنکھوں میں فقط دھول ہے کچھ یادوں کی
ہم اسے یاد بھی آئے ہیں تو کب یاد آئے
بھول جانے میں وہ ظالم ہے بھَلا کا ماہر
یاد آنے پہ بھی آئے تو غضب یاد آئے
یہ خنک رت یہ نئے سال کا پہلا لمحہ
دل کی خواہش ہے کہ محسن کوئی اب یاد آئے
محسن نقوی
محبتوں پہ بہت اعتماد کیا کرنا
بُھلا چکے ہیں اُسے پھر سے یاد کیا کرنا
وہ بے وفا ہی سہی اُس پہ تہمتیں کیسی
ذرا سی بات پہ اتنا فساد کیا کرنا
کچھ اس لیے بھی میں پسپا ہوا ہوں مقتل سے
کہ بہرِ مالِ غنیمت جہاد کیا کرنا
مسافتیں ہی پہن لیں تو منزلوں کے لیے
اب اعتبارِ رُخِ گردوبارکیا کرنا
نگاہ میں جو اُترتا ہے دل سے کیوں اُترے
دل و نگاہ میں پیدا تضاد کیا کرنا
میں اس لیے اُسے اب تک چھو نہ سکا محسن
وہ آہیٔنہ ہے اُسے سنگ زاد کیا کرنا
محسن نقوی
اَب کے سفر میں تشنہ لَبی نے، کیا بتلائیں، کیا کیا دیکھا؟
صحراؤں کی پیاس بجھاتے دریاؤں کو پیاسا دیکھا
شاید وہ بھی سرد رُتوں کے چاند سی قسمت لایا ہو گا
شہر کی بھِیڑ میں اکثر جس کو ہم نے تنہا تنہا دیکھا
چارہ گروں کی قَید سے چھوُٹے، تعبیریں سب راکھ ہوئی ہیں
اب کے دل میں درد وہ اُترا، اب کے خواب ہی ایسا دیکھا
رات بہت بھٹکے ہم لے کر، آنکھوں کے خالی مشکیزے
رات فرات پہ پھر دشمن کے لشکریوں کا پہرا دیکھا
درد کا تاجر بانٹ رہا تھا گلیوں میں مجروح تبسّم
دِل کی چوٹ کوئی کیا جانے، زخم تو آنکھ میں گہرا دیکھا
جس کے لیے بدنام ہوئے ہم، آپ تو اُس سے مِل کر آئے
آپ نے اُس کو کیسا پایا، آپ نے اُس کو کیسا دیکھا؟
کیسا شخص تھا زرد رُتوں کی بھیڑ میں جب بھی سامنے آیا
اُس کو دھوپ سا کھُلتا پایا، اُس کو پھول سی کھِلتا دیکھا
اَبر کی چادر تان کے جھیل میں ساتوں رنگ رچانے اُترا
موجئہ آب کی تہہ میں جانے چاند نے کس کا چہرہ دیکھا
تیرے بعد ہمارے حال کی ہر رُت آپ گواہی دے گی
ہر موسم نے اپنی آنکھ میں ایک ہی درد کا سایا دیکھا
محسنؔ بند کواڑ کے پیچھے ڈھونڈ رہی ہے، سہمی شمعیں
جیسے عُمر کے بعد ہوَا نے میرے گھر کا رستہ دیکھا
محسن نقوی
بچھڑ کے مجھ سے کبھی تُو نے یہ بھی سوچا ہے
اَدھورا چاند بھی کتنا اُداس لگتا ہے
یہ ختم وصل کا لمحہ ہے رائیگاں نہ سمجھ
کہ اِس کے بعد وہی دُوریوں کا صحرا ہے
کچھ اور دیر نہ جھڑنا اُداسیوں کے شجر
کسے خبر تیرے سائے میں کون بیٹھا ہے؟
یہ رکھ رکھاؤ محبت سکھا گئی اُس کو
وہ روٹھ کر بھی مجھے مُسکرا کے ملتا ہے
میں کس طرح تجھے دیکھوں نظر جھجکتی ہے
تیرا بدن ہے کہ یہ آئینوں کا دریا ہے؟
کچھ اِس قدر بھی تو آساں نہیں ہے عشق تیرا
یہ زہر دل میں اُتر کر ہی راس آتا ہے
میں تجھ کو پا کے بھی کھویا ہُوا سا رہتا ہُوں
کبھی کبھی تو مجھے تُو نے ٹھیک سمجھا ہے
مجھے خبر ہے کہ کیا ہے جدائیوں کا عذاب
کہ میں نے شاخ سے گُل کو بجھڑتے دیکھا ہے
میں مُسکرا بھی پڑا ہُوں تو کیوں خفا ہیں یہ لوگ
کہ پھول ٹوٹی ہُوئی قبر پر بھی کِھلتا ہے
اُسے گنوا کے مَیں زندہ ہُوں اِس طرح محسن
کہ جیسے تیز ہَوا میں چراغ جلتا ہے
محسن نقوی
شامِ غم جب بکھر گئی ہو گی
جانے کس کس کے گھر گئی ہو گی؟
اِتنی لرزاں نہ تھی چراغ کی لَو
اپنے سائے سے ڈر گئی ہو گی
چاندنی ایک شب کی مہماں تھی
صبح ہوتے ہی مَر گئی ہو گی
دیر تک وہ خفا رہے مجھ سے
دُور تک یہ خبر گئی ہو گی
ایک دریا کے رُخ بدلتے ہی
اِک ندی پھر اُتر گئی ہو گی
جس طرف وہ سفر پہ نکلا تھا
ساری رونق اُدھر گئی ہو گی
رات سورج کو دھونڈنے کے لیے
تا بہ حدِّ سحر گئی ہو گی
میری یادوں کی دھوپ چھاؤں میں
اُس کی صورت نکھر گئی ہو گی
یا تعلّق نہ نبھ سکا اس سے
یا طبیعت ہی بھر گئی ہو گی
تیری پل بھر کی دوستی محسنؔ
اُس کو بدنام کر گئی ہو گی
محسن نقوی
ہر اک جانب اداسی ہے
ابھی سوچیں تو کیا سوچیں؟
ہر اک سو، ہو کا عالم ہے
ابھی بولیں تو کیا بولیں؟
ہر اک انسان پتھر ہے
ابھی دھڑکیں تو کیا دھڑکیں؟
فضا پر نیند طاری ہے
ابھی جاگیں تو کیا جاگیں؟
ہر اک مقتل کی شہِ رگ میں
لہو کی لہر جاری ہے
ابھی دیکھیں تو کیا دیکھیں؟
ہر اک انسان کا سایہ
ابھی مٹی پہ بھاری ہے
ابھی لکھیں تو کیا لکھیں؟
محسن نقوی
ترکِ محبت کر بیٹھے ہم، ضبط محبت اور بھی ہے
ایک قیامت بیت چکی ہے، ایک قیامت اور بھی ہے
ہم نے اُسی کے درد سے اپنے سانس کا رشتہ جوڑ لیا
ورنہ شہر میں زندہ رہنے کی اِک صورت اور بھی ہے
ڈوبتا سوُرج دیکھ کے خوش ہو رہنا کس کو راس آیا
دن کا دکھ سہہ جانے والو، رات کی وحشت اور بھی ہے
صرف رتوں کے ساتھ بدلتے رہنے پر موقوف نہیں
اُس میں بچوں جیسی ضِد کرنے کی عادت اور بھی ہے
صدیوں بعد اُسے پھر دیکھا، دل نے پھر محسوس کیا
اور بھی گہری چوٹ لگی ہے، درد میں شدّت اور بھی ہے
میری بھیگتی پلکوں پر جب اُس نے دونوں ہاتھ رکھے
پھر یہ بھید کھُلا اِن اشکوں کی کچھ قیمت اور بھی ہے
اُس کو گنوا کر محسنؔ اُس کے درد کا قرض چکانا ہے
ایک اذّیت ماند پڑی ہے ایک اذّیت اور بھی ہے!
محسن نقوی
شب ڈھلی چاند بھی نکلے تو سہی
درد جو دل میں ہے چمکے تو سہی
ہم وہیں پر بسا لیں خود کو
وہ کبھی راہ میں روکے تو سہی
مجھے تنہائیوں کا خوف کیوں ہے
وہ میرے پیار کو سمجھے تو سہی
وہ قیامت ہو ،ستارہ ہوکہ دل
کچھ نہ کچھ ہجر میں ٹوٹے تو سہی
سب سے ہٹ کر منانا ہے اُسے
ہم سے اک بار وہ روٹھے تو سہی
اُس کی نفرت بھی محبت ہو گی
میرے بارے میں وہ سوچے تو سہی
دل اُسی وقت سنبھل جائے گا
دل کا احوال وہ پوچھے تو سہی
اُس کے قدموں میں بچھا دوں آنکھیں
میری بستی سے وہ گزرے تو سہی
میرا جسم آئینہ خانہ ٹھہرے
میری جانب کبھی دیکھے تو سہی
اُس کے سب جھوٹ بھی سچ ہیں محسن
شرط اتنی ہے کہ، بولے تو سہی
محسن نقوی
اَدھورا چاند بھی کتنا اُداس لگتا ہے
یہ ختم وصل کا لمحہ ہے رائیگاں نہ سمجھ
کہ اِس کے بعد وہی دُوریوں کا صحرا ہے
کچھ اور دیر نہ جھڑنا اُداسیوں کے شجر
کسے خبر تیرے سائے میں کون بیٹھا ہے؟
یہ رکھ رکھاؤ محبت سکھا گئی اُس کو
وہ روٹھ کر بھی مجھے مُسکرا کے ملتا ہے
میں کس طرح تجھے دیکھوں نظر جھجکتی ہے
تیرا بدن ہے کہ یہ آئینوں کا دریا ہے؟
کچھ اِس قدر بھی تو آساں نہیں ہے عشق تیرا
یہ زہر دل میں اُتر کر ہی راس آتا ہے
میں تجھ کو پا کے بھی کھویا ہُوا سا رہتا ہُوں
کبھی کبھی تو مجھے تُو نے ٹھیک سمجھا ہے
مجھے خبر ہے کہ کیا ہے جدائیوں کا عذاب
کہ میں نے شاخ سے گُل کو بجھڑتے دیکھا ہے
میں مُسکرا بھی پڑا ہُوں تو کیوں خفا ہیں یہ لوگ
کہ پھول ٹوٹی ہُوئی قبر پر بھی کِھلتا ہے
اُسے گنوا کے مَیں زندہ ہُوں اِس طرح محسن
کہ جیسے تیز ہَوا میں چراغ جلتا ہے
محسن نقوی
شامِ غم جب بکھر گئی ہو گی
جانے کس کس کے گھر گئی ہو گی؟
اِتنی لرزاں نہ تھی چراغ کی لَو
اپنے سائے سے ڈر گئی ہو گی
چاندنی ایک شب کی مہماں تھی
صبح ہوتے ہی مَر گئی ہو گی
دیر تک وہ خفا رہے مجھ سے
دُور تک یہ خبر گئی ہو گی
ایک دریا کے رُخ بدلتے ہی
اِک ندی پھر اُتر گئی ہو گی
جس طرف وہ سفر پہ نکلا تھا
ساری رونق اُدھر گئی ہو گی
رات سورج کو دھونڈنے کے لیے
تا بہ حدِّ سحر گئی ہو گی
میری یادوں کی دھوپ چھاؤں میں
اُس کی صورت نکھر گئی ہو گی
یا تعلّق نہ نبھ سکا اس سے
یا طبیعت ہی بھر گئی ہو گی
تیری پل بھر کی دوستی محسنؔ
اُس کو بدنام کر گئی ہو گی
محسن نقوی
ہر اک جانب اداسی ہے
ابھی سوچیں تو کیا سوچیں؟
ہر اک سو، ہو کا عالم ہے
ابھی بولیں تو کیا بولیں؟
ہر اک انسان پتھر ہے
ابھی دھڑکیں تو کیا دھڑکیں؟
فضا پر نیند طاری ہے
ابھی جاگیں تو کیا جاگیں؟
ہر اک مقتل کی شہِ رگ میں
لہو کی لہر جاری ہے
ابھی دیکھیں تو کیا دیکھیں؟
ہر اک انسان کا سایہ
ابھی مٹی پہ بھاری ہے
ابھی لکھیں تو کیا لکھیں؟
محسن نقوی
ترکِ محبت کر بیٹھے ہم، ضبط محبت اور بھی ہے
ایک قیامت بیت چکی ہے، ایک قیامت اور بھی ہے
ہم نے اُسی کے درد سے اپنے سانس کا رشتہ جوڑ لیا
ورنہ شہر میں زندہ رہنے کی اِک صورت اور بھی ہے
ڈوبتا سوُرج دیکھ کے خوش ہو رہنا کس کو راس آیا
دن کا دکھ سہہ جانے والو، رات کی وحشت اور بھی ہے
صرف رتوں کے ساتھ بدلتے رہنے پر موقوف نہیں
اُس میں بچوں جیسی ضِد کرنے کی عادت اور بھی ہے
صدیوں بعد اُسے پھر دیکھا، دل نے پھر محسوس کیا
اور بھی گہری چوٹ لگی ہے، درد میں شدّت اور بھی ہے
میری بھیگتی پلکوں پر جب اُس نے دونوں ہاتھ رکھے
پھر یہ بھید کھُلا اِن اشکوں کی کچھ قیمت اور بھی ہے
اُس کو گنوا کر محسنؔ اُس کے درد کا قرض چکانا ہے
ایک اذّیت ماند پڑی ہے ایک اذّیت اور بھی ہے!
محسن نقوی
شب ڈھلی چاند بھی نکلے تو سہی
درد جو دل میں ہے چمکے تو سہی
ہم وہیں پر بسا لیں خود کو
وہ کبھی راہ میں روکے تو سہی
مجھے تنہائیوں کا خوف کیوں ہے
وہ میرے پیار کو سمجھے تو سہی
وہ قیامت ہو ،ستارہ ہوکہ دل
کچھ نہ کچھ ہجر میں ٹوٹے تو سہی
سب سے ہٹ کر منانا ہے اُسے
ہم سے اک بار وہ روٹھے تو سہی
اُس کی نفرت بھی محبت ہو گی
میرے بارے میں وہ سوچے تو سہی
دل اُسی وقت سنبھل جائے گا
دل کا احوال وہ پوچھے تو سہی
اُس کے قدموں میں بچھا دوں آنکھیں
میری بستی سے وہ گزرے تو سہی
میرا جسم آئینہ خانہ ٹھہرے
میری جانب کبھی دیکھے تو سہی
اُس کے سب جھوٹ بھی سچ ہیں محسن
شرط اتنی ہے کہ، بولے تو سہی
محسن نقوی