اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

اتوار، 29 ستمبر، 2013

محسن نقوی

قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ

اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ
سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں
حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ
کاش اس خواب کی تعبیر کی مہلت نہ ملے
شعلے اگتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ
ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا
سر کشیدہ میرا سایہ صفِ اشجار کے بیچ
رزق، ملبوس، مکاں، سانس، مرض، قرض، دوا
منقسم ہو گیا انساں انہی افکار کے بیچ
دیکھے جاتے نہ تھے آنسو میرے جس سے محسن
آج ہنستے ہوئے دیکھا اسے اغیار کے بیچ

حبیب جالب



آگ ہے پھیلی ہوئی کالی گھٹاؤں کی جگہ

بددعائیں ہیں لبوں پر اب دعاؤں کی جگہ
انتخابِ اہلِ گلشن پر بہت روتا ہے دل
دیکھ کر زاغ و زغن کو خوش نواؤں کی جگہ
کچھ بھی ہوتا پر نہ ہوتے پارہ پارہ جسم و جاں
راہزن ہوتے اگر ان رہنماؤں کی جگہ
لُٹ گئی اس دور میں اہلِ قلم کی آبرو
بک رہے ہیں اب صحافی بیسواؤں کی جگہ
کچھ تو آتا ہم کو بھی جاں سے گزرنے کا مزہ
غیر ہوتے کاش جالب آشناؤں کی جگہ
حبیب جالب

صوفی تبسّم



رسمِ مہر و وفا کی بات کریں


پھر کسی دلربا کی بات کریں



سخت بیگانہ ءِ حیات ہے دل


آؤ اس آشنا کی بات کریں


زلف و رُخسار کے تصوّر میں



حسن و ناز و ادا کی بات کریں


گیسوؤں کے فسانے دہرائیں


اپنے بختِ رسا کی بات کریں



مدّعائے وفا کسے معلوم



دلِ بے مدّعا کی بات کریں



کشتی ءِ دل کا ناخدا دل ہے



کیوں کسی ناخدا کی بات کریں


بھول جائیں جہاں کے جور و ستم



اپنی مہر و وفا کی بات کریں



ہم سے آزردہ ہے تبسّم دوست



اسی حسنِ ادا کی بات کریں




صوفی تبسّم

بہزاد لکھنوی



اے جذبہ ءِ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے


منزل کیلئے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے



اے دل کی خلش چل یوں ہی سہی چلتا تو ہوں انکی محفل میں



اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے



آتا ہے جو طوفاں آنے دے کشتی کا خدا خود خافظ ہے



مشکل تو نہیں ان موجوں میں بہتا ہوا ساحل آ جائے



اس عشق میں جان کو کھونا ہے ماتم کرنا ہے رونا ہے



میں جانتا ہوں جو ہونا ہے پر کیا کروں جب دل آ جائے



اے راہبر کامل چلنے کو تیار تو ہوں پر یاد رہے



اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جائے



ہاں یاد مجھے تم کر لینا آواز مجھے تم دے لینا



اس راہ محبت میں کوئی درپیش جو مشکل آ جائے



اب کیا ڈھونڈوں گا چشم کرم ہونے دے ستم بالائے ستم



میں چاہوں اے جذبہ ءِ غم کہ مشکل پس مشکل آ جائے



بہزاد لکھنوی

امیر مینائی

جب تلک ہست تھے، دشوار تھا پانا تیرا

مٹ گئے ہم، تو مِلا ہم کو ٹھکانا تیرا

نہ جہت تیرے لیئے ہے نہ کوئی جسم ہے تو

چشم ظاہر کو ہے مشکل نظر آنا تیرا

شش جہت چھان چُکے ہم تو کھُلا ہم پہ حال

رگِ گردن سے ہے نزدیک ٹھکانا تیرا

اب تو پیری میں نہیں پوچھنے والا کوئی

کبھی اے حسن جوانی، تھا زمانہ تیرا

اے صدف چاک کرے گا یہی سینہ اک دن

تو یہ سمجھی ہے کہ گوہر ہے یگانا تیرا

دور اگلے شعراء کا تھا کبھی، اور امیر

اب تو ہے ملک معانی میں زمانہ تیرا 

امیر مینائی

خواجہ پرویز





جو چلا گیا مجھے چھوڑ کر، وہی آج تک میرے ساتھ ہے

جو کسی نظر سے عطا ہوئی، وہی روشنی ہے خیال میں



وہ نہ آ سکے رہوں منتظر، یہ خلش کہاں تھی وصال میں



میری جستجو کو خبر نہیں، نہ وہ دن رہے ،نہ وہ رات ہے



جو چلا گیا مجھے چھوڑ کر، وہی آج تک میرے ساتھ ہے

کرے پیار لب پہ گِلہ نہ ہو، یہ کِسی کِسی کا نصیب ہے



یہ کرم ہے اُس کا جفا نہیں، وہ جُدا بھی رہ کے قریب ہے



وہی آنکھ ہے میرے روبرو، اُسی ہاتھ میں میرا ہاتھ ہے



جو چلا گیا مجھے چھوڑ کر، وہی آج تک میرے ساتھ ہے

میرا نام تک جو نہ لے سکا، جو مجھے قرار نہ دے سکا



جِسے اختیار تو تھا مگر، مجھے اپنا پیار نہ دے سکا



وہی شخص میری تلاش ہے، وہی درد میری حیات ہے



جو چلا گیا مجھے چھوڑ کر، وہی آج تک میرے ساتھ ہے



خواجہ پرویز