"پروین شاکر"
چلنے کا حوصلہ نہیں ، رُ کنا محال کردیا
عشق کے اس سفر نے تو ، مجھ کو نڈھال کردیا
ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کردیا
اے میری گل زمیں تجھے، چاہ تھی ایک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر کیا تیرا حال کردیا
اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامانِ یار منتظر
بانوِ شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا
ممکناں فیصلوں میں ایک ہجر کا ایک فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے تو کمال کردیا
میرے لبوں پہ مُہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
شہر کے شہر کو میرا واقف حال کردیا
چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آسکے
وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کردیا
مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گِلا کیا
منسبِ دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کردیا
**
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا تیرا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ، ہوتا رہا ملال بھی
بات وہ آدھی رات کی، رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چیت کا، اس پہ تیرا جمال بھی
سب سے نظر بچا کے وہ، مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا
ایک دفعہ تو رک گئی، گردشِ ماہ و سال بھی
دل تو چمک سکے گا کیا، پھر بھی ترش کے دیکھ لیں
شیشہ گران شہر کے، ہاتھ کا یہ کمال بھی
اس کو نہ پا سکے تھے جب، دل کا عجیب حال تھا
اب جو پلٹ کے دیکھئیے، بات تھی کچھ محال بھی
میری طلب تھا ایک شخص، وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا، بھول گیا سوال بھی
اس کی سخن طرازیاں، میرے لیئے بھی ڈھال تھیں
اس کی ہنسی میں چھپ گیا، اپنے غموں کا حال بھی
گاہ قریب شاہ رگ، گاہ امید دائم و خواب
اس کی رفاقتوں میں رات، ہجر بھی تھا وصال بھی
اس کے بازؤں میں اور، اس کو ہی سوچتے رہے
جسم کی خواہشوں پہ تھے روح کے اور جال بھی
شام کی نا سمجھ ہوا، پوچھ رہی ہے اک پتہ
موجِ ہوائے کوئے یار، کچھ تو میرا خیال بھی
پروین شاک*
*