اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

جمعرات، 30 جولائی، 2015

ناصر کاظمی کی منتخب غزلیں



غم ہے یا خوشی ہے تو
میری زندگی ہے تو

آفتوں کے دور میں
چین کی گھڑی ہے تو

میری رات کا چراغ
میری نیند بھی ہے تو

میں خزاں کی شام ہوں
رُت بہار کی ہے تو

دوستوں کے درمیاں
وجہِ دوستی ہے تو

میری ساری عمر میں
ایک ہی کمی ہے تو

میں تو وہ نہیں رہا
ہاں مگر وہی ہے تو

ناصر اس دیار میں
کتنا اجنبی ہے تو
ناصر کاظمی
۔۔۔۔
کل جنہیں زندگی تھی راس بہت
آج دیکھا انہیں‌اداس بہت

رفتگاں کا نشاں نہیں ملتا
اُگ رہی ہے زمیں پہ گھاس بہت

کیوں نہ روؤں تری جدائی میں
دن گزرتے ہیں تیرے پاس بہت

چھاؤں مل جائے دامنِ گل کی
ہے غریبی میں یہ لباس بہت

وادیِ دل میں پاؤں دیکھ کے رکھ
ہے یہاں درد کی اُگاس بہت

سوکھے پتوں کو دیکھ کر ناصر
یاد آتی ہے گل کی باس بہت



جمعہ، 17 جنوری، 2014

ادا جعفری ...ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے



ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سرِ الزام ہی آئے

حیران ہیں، لب بستہ ہیں، دل گیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی تیرا پیغام ہی آئے

لمہحاتِ مسرت ہیں تصوّر سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے

تاروں سے سجالیں گے رہ شہرِ تمنّا
مقدور نہیں صبح ، چلو شام ہی آئے

کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس راہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے

تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ کوئے تمنّا
کام آئے تو پھر جذبئہِ نام ہی آئے

باقی نہ رہے ساکھ ادا دشتِ جنوں کی 
دل میں اگر اندیشہ انجام ہی آئے

جمعرات، 16 جنوری، 2014

لكھ دیا اپنے در پہ كسی نے اس جگہ پیار كرنا منع ہے Qateel shifai



لكھ دیا اپنے در پہ كسی نے اس جگہ پیار كرنا منع ہے
  پیار اگر ہو بھی جائے كسی كو اس كا اظہار كرنا منع ہے
   ان كی محفل میں جب كوئی جائے پہلے نظریں وہ اپنی جھكائے
    وہ صنم جو خدا بن گئے ہیں ان كا دیدار كرنا منع ہے
   جاگ اٹھیں گے تو آہیں بھریں گے حسن والوں كو رسوا كریں گے
  سو گئے ہیں جو فرقت كے مارے    ان كو بیدار كرنا منع ہے
   ہم نے كی عرض اے بندہ پرور كیوں ستم ڈھا رہے ہو یہ ہم پر
   بات سن كر ہماری وہ بولے ہم سے تكرار كرنا منع ہے
   سامنے جو كھلا ہے جھرونكا آنا جانا قتیل ان كا دھوكا
   اب بھی اپنے لیے اس گلی میں میں شب دیدار كرنا منع ہے
****
جب درمیاں ہمارے، یہ سنگدل زمانہ، دیوار چن رہا تھا
میں ضبط کی حدوں میں، تیری خموشیوں کی گفتار سُن رہا تھا

عرض و طلب کا نغمہ، کل رات جب چھیڑا تھا اک سازِ بے صدا پر
تھا محو میں بھی لیکن، سر بیخودی میں تو بھی، ہر بار دُھن رہا تھا

روزِازل سے مجھ کو، بت خانہِ وفا سے، تھی اِس لئے عقیدت
بِکھرے ہوئے بُتوں سے، میں اپنی عظمتوں کے، شہکار چُن رہا تھا

معلوم تھا یہ کس کو، غم کی سیاہ راتیں، کاٹے نہ کٹ سکیں گی
میں آس پاس اپنے، ہالا تسلیوں کا بیکار بُن رہا تھا

جب پو پھٹی تو بڑھ کر، کچھ نا اُمیدیوں نے مجھ سے قتیل پوچھا
کیا تو ہی ہے جواب تک، موہوم آہٹوں کی جھنکار سن رہا تھا

***
بے کیف جوانی میں کیا کیا سامان خریدے جاتے ہیں
آہوں کے بگولے اشکوں کے طوفان خریدے جاتے ہیں

دل سے تو کوئی کیا چاہے گا اس اُجڑے ہوئے کاشانے کو
مجبوری کا یہ عالم ہے مہمان خریدے جاتے ہیں

ہر چیز کا سودا چکتا ہے دن رات بھرے بازاروں میں
جھنکاریں بیچی جاتی ہیں ایمان خریدے جاتے ہیں

اک بات بھی ہوتی تُل جاتے ہم سونے کی میزانوں میں
افسوس یہاں دو کوڑی میں انسان خریدے جاتے ہیں.


***
زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں
میں تو مر کر بھی مری جان تجھے چاہوں گا

Zindagi Main To Sabhi Pyaar Kiya Kartay Hain
Main To Mar Kar Bhi Meri Jaan Tujhay Chahoun Ga

تو ملا ہے تو یہ احساس ہوا ہے مجھ کو
یہ میری عمر محبت کے لیے تھوڑی ہے

To Mila Hay To Yeh Ahsaas Hua Hay Mujhko
Yeh Meri Umer Muhabbat k Liye Thori Hay

اک ذرا سا غمِ دوراں کا بھی حق ہے جس پر
میں نے وہ سانس بھی تیرے لیے رکھ چھوڑی ہے

Ek Zara Sa Gham-e-Doraan Ka Bhi Haq Hay Jis Par
Main nay Woh Saans Bhi Tere Liye Rakh Chori Hay

تجھ پہ ہو جاؤں گا قربان تجھے چاہوں گا
میں تو مر کر بھی مری جان تجھے چاہوں گا

Tujh Pah Ho Jaun Ga Qurbaan Tujhay Chahoun Ga
Main To Mar Kar Bhi Meri Jaan Tujhay Chahoun Ga


*****

نگاہوں میں خمار آتا ہوا محسوس ہوتا ہے
تصور جام چھلکاتا ہوا محسوس ہوتا ہے

Nigahoun Main Khumaar Ata Hua Mehsos hota hay
Tasawur-e-Jaam Chalkata hua Mehsoos Hota Hay

خرام ناز۔ اور اُن کا خرام ناز ؟ کیا کہنا
زمانہ ٹھوکریں کھاتا ہوا محسوس ہوتا ہے

Khram-e-Naaz. aur unka Kharam-e-Naaz? Kya Kehna
Zamana Thokrain Khata Hua Mehsos Hota Hay

تصور ایک ذہنی جستجو کا نام ہے شاید
دل اُن کو ڈھونڈ کر لاتا ہوا محسوس ہوتا ہے

Tasawur Aik Zehni Justaju Ka Naam Hay Shayad
Dil Unko Dhound Kar Laata hua Mehsoos Hota Hay

کسی کی نقرئی پازیب کی جھنکار کے صدقے
مجھے سارا جہاں گاتا ہوا محسوس ہوتا ہے

Kisi Ki Naqrai Pazaib Ki Jhankaar k Sadqay
Mujhay Sara Jahan Gaata Hua Mehsoos Hota Hay

قتیلؔ اب دل کی دھڑکن بن گئی ہے چاپ قدموں کی
کوئی میری طرف آتا ہوا محسوس ہوتا ہے

Qateel Ab Dil Ki Dharkan Ban Gayi Hay Chaap Qadmoun Ki
Koi Meri Taraf Aata Hua Mehsoos Hota Hay

Jon elia ... جب تری جان ہو گئی ہو گی


علامہ جون ایلیا (14 دسمبر، 1937ء – 8 نومبر، 2002ء) برصغیر میں نمایاں حیثیت رکھنے والے پاکستانی شاعر، فلسفی، سوانح نگار اور عالم تھے۔ وہ اپنے انوکھے انداز تحریر کی وجہ سے سراہے جاتے تھے۔ وہ معروف صحافی رئیس امروہوی اور فلسفی سید محمد تقی کے بھائی، اور مشہور کالم نگار زاہدہ حنا کے سابق خاوند تھے۔ جون ایلیا کو عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی میں اعلی مہارت حاصل تھی۔

جب تری جان ہو گئی ہو گی
جان حیران ہو گئی ہوگی

شب تھا میری نگاہ کا بوجھ اس پر
وہ تو ہلکان ہو گئی ہوگی

اس کی خاطر ہوا میں خار بہت
وہ میری آن ہو گئی ہو گی

ہو کے دشوار زندگی اپنی
اتنی آسان ہو گئی ہوگی

بے گلہ ہوں میں اب بہت دن سے
وہ پریشان ہو گئی ہوگی

اک حویلی تھی دل محلے میں
اب وہ ویران ہو گئی ہوگی

اس کے کوچے میں آئی تھی شیریں
اس کی دربان ہو گئی ہوگی

کمسنی میں بہت شریر تھی وہ
اب تو شیطان ہو گئی ہوگی
***************
ک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں : جون ایلیا

اِک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
سب کے دل سے اُتر گیا ہوں میں

کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کروں
سُن رہا ہوں کہ گھر گیا ہوں میں

کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں

اب ہے اپنا سامنا درپیش
ہر کسی سے گزر گیا ہوں میں

وہی ناز و ادا ، وہی غمزے
سر بہ سر آپ پر گیا ہوں میں
********
دل نے وفا کے نام پر کارِ وفا نہیں کیا
خود کو ہلاک کر لیا، خود کو فدا نہیں کیا

کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی
تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا

تو بھی کسی کے باب میں عہد شکن ہو غالباً
میں نے بھی ایک شخص کا قرض ادا نہیں کیا

جو بھی ہو تم پہ معترض، اُس کو یہی جواب دو
آپ بہت شریف ہیں، آپ نے کیا نہیں کیا

جس کو بھی شیخ و شاہ نے حکمِ خُدا دیا قرار
ہم نے نہیں کیا وہ کام، ہاں با خُدا نہیں کیا

نسبت علم ہے بہت حاکمِ وقت کو ہے عزیز
اُس نے تو کارِ جہل بھی بے علما نہیں کیا

اداسی میں گِھرا تھا دِل چراغِ شام سے پہلے Amjad Islam amjad


اداسی میں گِھرا تھا دِل چراغِ شام سے پہلے
نہیں تھا کُچھ سرِ محفل چراغِ شام سے پہلے

حُدی خوانو، بڑھاؤ لَے، اندھیرا ہونے والا ہے
پہنچنا ہے سرِ منزل چراغِ شام سے پہلے

دِلوں میں اور ستاروں میں اچانک جاگ اُٹھتی ہے
عجب ہلچل، عجب جِھل مِل چراغِ شام سے پہلے

وہ ویسے ہی وہاں رکھی ہے ، عصرِ آخرِ شب میں
جو سینے پر دھری تھی سِل، چراغِ شام سے پہلے

ہم اپنی عُمر کی ڈھلتی ہُوئی اِک سہ پہر میں ہیں
جو مِلنا ہے ہمیں تو مِل، چراغِ شام سے پہلے

ہمیں اے دوستو اب کشتیوں میں رات کرنی ہے
کہ چُھپ جاتے ہیں سب ساحل، چراغِ شام سے پہلے

سَحر کا اوّلیں تارا ہے جیسے رات کا ماضی
ہے دن کا بھی تو مُستَقبِل، چراغِ شام سے پہلے

نجانے زندگی اور رات میں کیسا تعلق ہے !
اُلجھتی کیوں ہے اِتنی گلِ چراغِ شام سے پہلے

محبت نے رگوں میں کِس طرح کی روشنی بھردی !
کہ جل اُٹھتا ہے امجد دِل، چراغِ شام سے پہلے

امجد اسلام امجد

پیر، 30 دسمبر، 2013

ابھی تو میں جوان ہوں


ابو الاثر حفیظ جالندھری 


ابو الاثر حفیظ جالندھری كی آج برسی ہے آپ پاكستان كے قومی ترانے كے خالق بھی ہیں 
آپ 14 جنوری 1900 میں برٹش انڈیا كے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے آپ كا تعلق راجپوت گھرانے سے تھا
آپ كے والد شمس الدین حافظ قرآن تھے آپ نے ابتدائی تعلیم ایك مسجد میں حاصل كی
اس مسجد كو بعد میں ایك اسكول سے منسلك كر دیا گیا جہاں آپ ساتویں كلاس تك پڑھا
قیام پاكستان میں آپ ہجرت كر كے لاہور آ گئے
آپ كشمیر كے ترانے كے بھی خالق ہیں وطن ہمارا آزاد كشمیر
حكومت پاكستان كی طرف سے آپ كو حلال امتیاز اوراعلی كاركردگی كے اعزاز سے نوازا
شاہ نامہء اسلام آپ كی وجہ شہرت بنا
آپ نے 21 دسمبر 1982كو وفات پائی
آپ كی مشہور زمانہ نظم آج بھی زبان عام ہے
**********************************

ہوا بھی خوش گوار ہے
گلوں پہ بھی نکھار ہے
ترنّمِ ہزار ہے
بہارِ پُر بہار ہے
کہاں چلا ہے ساقیا
اِدھر تو لوٹ، اِدھر تو آ
یہ مجھ کو دیکھتا ہے کیا
اٹھا سبُو، سبُو اٹھا
سبُو اٹھا، پیالہ بھر
پیالہ بھر کے دے اِدھر
چمن کی سمت کر نظر
سماں تو دیکھ بے خبر
وہ کالی کالی بدلیاں
افق پہ ہو گئیں عیاں
وہ اک ہجومِ مے کشاں
ہے سوئے مے کدہ رواں
یہ کیا گماں ہے بد گماں
سمجھ نہ مجھ کو ناتواں

خیالِ زہد ابھی کہاں
ابھی تو میں جوان ہوں

عبادتوں کا ذکر ہے
نجات کی بھی فکر ہے
جنون ہے ثواب کا
خیال ہے عذاب کا
مگر سنو تو شیخ جی
عجیب شے ہیں آپ بھی
بھلا شباب و عاشقی
الگ ہوئے بھی ہیں کبھی
حسین جلوہ ریز ہوں
ادائیں فتنہ خیز ہوں
ہوائیں عطر بیز ہوں
تو شوق کیوں نہ تیز ہوں
نگار ہائے فتنہ گر
کوئی اِدھر کوئی اُدھر
ابھارتے ہوں عیش پر
تو کیا کرے کوئی بشر
چلو جی قصّہ مختصر
تمھارا نقطۂ نظر

درست ہے تو ہو مگر
ابھی تو میں جوان ہوں

نہ غم کشود و بست کا
بلند کا نہ پست کا
نہ بود کا نہ ہست کا
نہ وعدۂ الست کا
امید اور یاس گم
حواس گم، قیاس گم
نظر کے آس پاس گم
ہمہ بجز گلاس گم
نہ مے میں کچھ کمی رہے
قدح سے ہمدمی رہے
نشست یہ جمی رہے
یہی ہما ہمی رہے
وہ راگ چھیڑ مطربا
طرَب فزا، الَم رُبا
اثر صدائے ساز کا
جگر میں آگ دے لگا
ہر ایک لب پہ ہو صدا
نہ ہاتھ روک ساقیا

پلائے جا پلائے جا
ابھی تو میں جوان ہوں

یہ گشت کوہسار کی
یہ سیر جوئبار کی
یہ بلبلوں کے چہچہے
یہ گل رخوں کے قہقہے
کسی سے میل ہو گیا
تو رنج و فکر کھو گیا
کبھی جو بخت سو گیا
یہ ہنس گیا وہ رو گیا
یہ عشق کی کہانیاں
یہ رس بھری جوانیاں
اِدھر سے مہربانیاں
اُدھر سے لن ترانیاں
یہ آسمان یہ زمیں
نظارہ ہائے دل نشیں
انھیں حیات آفریں
بھلا میں چھوڑ دوں یہیں
ہے موت اس قدر قریں
مجھے نہ آئے گا یقیں

نہیں نہیں ابھی نہیں
ابھی تو میں جوان ہوں


زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں



زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں 


میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا 

تو ملا ہے تو یہ احساس ہوا ہے مجھ کو 
یہ میری عمر محبت کے لیے تھوڑی ہے 
اک ذرا سا غمِ دوراں کا بھی حق ہے جس پر
میں نے وہ سانس بھی تیرے لیے رکھ چھوڑی ہے

تجھ پہ ہو جاؤں گا قربان تجھے چاہوں گا
میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا

اپنے جذبات میں نغمات رچانے کے لیے
میں نے دھڑکن کی طرح دل میں بسایا ہے تجھے
میں تصور بھی جدائی کا بھلا کیسے کروں
میں نے قسمت کی قسمت کی لکیروں‌ سے
چرایا ہے تجھے

پیار کا بن کے نگہبان تجھے چاہوں گا
میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا

تیری ہر چاپ سے جلتے ہیں خیالوں‌میں چراغ
جب بھی تو آئے جگاتا ہوا جادو آئے
تجھ کو چھو لوں‌تو پھر اے جانِ تمنا مجھ کو
دیر تک اپنے بدن سے تری خوشبو آئے

تو بہاروں کا ہے عنوان تجھے چاہوں گا
میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا

زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں
میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا !

اتوار، 24 نومبر، 2013

وہ جس کے نام سے نبض حیات چلتی ہے ,, شاہ نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ

شاہ نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ
  


وہ جس کے نام سے نبض حیات چلتی ہے

زمین کا ذکر ہی کیا کائنات چلتی ہے

یہ بات ذہن میں رکھئیے کہ جبر کے آگے

حسین بات چلائے تو بات چلتی ہے

حسین زبدہ نسل رسول ابن رسول

علی
 کے لاڈلے زھرا کے پھول ابن رسول


حسن حسین ہی اب نانا کے ہیں مصداق

کہےگا انکو ہراک با اصول ابن رسول

تیرا وجود ہے خود آیت و من الآیات

ہے
 کربلا تیری شان نزول ابن رسول

اگر تو دوش رسالت پہ کھیلنا چاہے

تو دیں رسول بھی سجدے کو طول ابن رسول

تیرے خلوص عمل سے سبق نہ سیکھ سکے

یہ دیں فروش یہ اجرت وصول ابن رسول

رسول بند نہ کرتے اگر یہ دروازہ

خدا گواہ ہوتا رسول ابن رسول

تجھے عدو بھی ملا تو عجیب سفلہ مزاج

نہ کوئی شرم نہ کوئی اصول ابن رسول

یہ قیصری تیرے پائےغیور کا دھوون

یہ سیم و زر تیرے قدموں کی دھول ابن رسول

ہے تیرے بیعت امامت میرے جنوں کا مقام

جبین عجز کا سجدہ قبول ابن رسول

نصیر کو نہ اٹھانا اب اپنی چوکھٹ سے

با حق فاطمہ زھرا بتول ابن رسول

شاہ نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ

چشمِ حقیقت آشنا دیکھے جو حُسن کی کتاب --- بیؔدم شاہ وارثی ؒ



چشمِ حقیقت آشنا دیکھے جو حُسن کی کتاب 

دفترِ صد حدیثِ راز ہر ورقِ مجاز ہو 

سامنے روئے یار ہو سجدہ میں ہو سرِ نیاز
 
یونہی حریم ناز میں آٹھوں پہر نماز ہو 

اس کے حریم ناز میں عقل و خرد کو دخل کیا

جس کی گلی کی خاک کا ذرّہ جہانِ راز ہو

تیری گلی میں پا کے جا ، جائے کہاں تیرا گدا 

کیوں نہ وہ بے نیاز ہو تجھ سے جسے نیاز ہو

بیؔدم خستہ ہجر میں بن گئی جانِ زار پر 

جس نے دیا ہے دردِ دل کاش وہ چارہ ساز ہو



بیؔدم شاہ وارثی


  ؒ

چلنے کا حوصلہ نہیں ، رُ کنا محال کردیا "پروین شاکر"

"پروین شاکر"


چلنے کا حوصلہ نہیں ، رُ کنا محال کردیا


عشق کے اس سفر نے تو ، مجھ کو نڈھال کردیا


ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی


اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کردیا


اے میری گل زمیں تجھے، چاہ تھی ایک کتاب کی


اہل کتاب نے مگر کیا تیرا حال کردیا


اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامانِ یار منتظر

بانوِ شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا


ممکناں فیصلوں میں ایک ہجر کا ایک فیصلہ بھی تھا



ہم نے تو ایک بات کی اس نے تو کمال کردیا

میرے لبوں پہ مُہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو



شہر کے شہر کو میرا واقف حال کردیا


چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آسکے


وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کردیا

مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گِلا کیا


منسبِ دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کردیا

"پروین شاکر"


**
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا تیرا خیال بھی

دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ، ہوتا رہا ملال بھی

بات وہ آدھی رات کی، رات وہ پورے چاند کی

چاند بھی عین چیت کا، اس پہ تیرا جمال بھی

سب سے نظر بچا کے وہ، مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا

ایک دفعہ تو رک گئی، گردشِ ماہ و سال بھی

دل تو چمک سکے گا کیا، پھر بھی ترش کے دیکھ لیں
شیشہ گران شہر کے، ہاتھ کا یہ کمال بھی

اس کو نہ پا سکے تھے جب، دل کا عجیب حال تھا

اب جو پلٹ کے دیکھئیے، بات تھی کچھ محال بھی

میری طلب تھا ایک شخص، وہ جو نہیں ملا تو پھر

ہاتھ دعا سے یوں گرا، بھول گیا سوال بھی

اس کی سخن طرازیاں، میرے لیئے بھی ڈھال تھیں

اس کی ہنسی میں چھپ گیا، اپنے غموں کا حال بھی

گاہ قریب شاہ رگ، گاہ امید دائم و خواب

اس کی رفاقتوں میں رات، ہجر بھی تھا وصال بھی

اس کے بازؤں میں اور، اس کو ہی سوچتے رہے

جسم کی خواہشوں پہ تھے روح کے اور جال بھی

شام کی نا سمجھ ہوا، پوچھ رہی ہے اک پتہ

موجِ ہوائے کوئے یار، کچھ تو میرا خیال بھی

پروین شاک*
 *