اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

پیر، 7 ستمبر، 2015

ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے ۔ فیض احمد فیض ۔ Faiz ahmad faiz

غزل
ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے
دشنام تو نہیں ہے، یہ اکرام ہی تو ہے
کرتے ہیں جس پہ طعن کوئی جرم تو نہیں
شوقِ فضول و الفتِ ناکام ہی تو ہے
دل مدعی کے حرفِ ملامت سے شاد ہے
اے جانِ جاں یہ حرف ترا نام ہی تو ہے
دل ناامید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
دستِ فلک میں گردشِ تقدیر تو نہیں
دستِ فلک میں گردشِ ایام ہی تو ہے
آخر تو ایک روز کرے گی نظر وفا
وہ یارِ خوش خصال سرِ بام ہی تو ہے
بھیگی ہے رات فیضؔ غزل ابتدا کرو
وقتِ ِسرود، درد کا ہنگام ہی تو ہے
منٹگمری جیل
9، مارچ، 1954

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے .فیض احمد فیض کی ایک نظم ۔(ایتھل اور جولیس روزن برگ کے خطوط سے متاثر ہو کر لکھی گئی)

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
(ایتھل اور جولیس روزن برگ کے خطوط سے متاثر ہو کر لکھی گئی)
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتوں‌کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں‌کی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی
جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلے آئے ،لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرفِ غزل ، دل میں قندیل ِغم
اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں‌میں مارے گئے
نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری الفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے 
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جا ملے
قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عُشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کرچلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں‌ مارے گئے
(فیض احمد فیضؔ)
منٹگمری جیل
15 مئی 54ء

اے روشنیوں‌کے شہر . فیض احمد فیض کی ایک نظم ۔ faiz ahmad faiz

اے روشنیوں‌کے شہر
سبزہ سبزہ، سوکھ رہی ہے پھیکی، زرد دوپہر
دیواروں‌کو چاٹ رہا ہے تنہائی کا زہر
دور افق تک گھٹتی، بڑھتی ، اُٹھتی، گرتی رہتی ہے
کہر کی صورت بے رونق دردوں کی گدلی لہر
بستا ہے اس کہر کے پیچھے روشنیوں کا شہر
اے روشنیوں کے شہر
کون کہے کس سمت ہے تیری روشنیوں کی راہ
ہر جانب بے نور کھڑی ہے ہجر کی شہر پناہ
تھک کر ہرسو بیٹھ رہی ہے شوق کی ماند سپاہ
آج مرا دل فکر میں ہے
اے روشنیوں کے شہر
شب خوں سے منھ پھیر نہ جائے ارمانوں کی رو
خیر ہو تیری لیلاؤں کی، ان سب سے کہہ دو
آج کی شب جب دیے جلائیں، اونچی رکھیں لو
(فیض احمد فیضؔ)
لاہور جیل 28 مارچ منٹگمری جیل 15 اپریل 54ء

شب وصال کے روز فراق میں کیا کیا ۔ ابراہیم ذوق ۔ Ibrahim zooq

شب وصال کے روز فراق میں کیا کیا
شب وصال کے روز فراق میں کیا کیا
نصیب مجھ سے میرے انتقال لیتے ہیں
ترے اسیر جو صیاد کرتے ہیں فریاد
تو پھر وہ دم بھی زیر دام لیتے ہیں
ہم ان کے زور کے قائل ہیں زور بازو میں
جو عشق میں دل مضطر کو تھام لیتے ہیں
جھکائے ہے سر تسلیم ماہ نو پر وہ
غرور حسن سے کس کا سلام لیتے ہیں
ترے قتیل بتاتے نہیں تجھے قاتل
جب ان سے پوچھو اجل ہی کا نام لیتے ہیں
قمر کا داغ بھلا آئے کس حساب میں داں
وہ مول ایسے ہزاروں غلام لیتے ہیں
ہمارے ہاتھ سے ذوق وقت مے نوشی
ہزار ناز سے وہ ایک جام لیتے ہیں
محمد ابراہیم ذوق

شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی ، IBNE INSHA

شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی
یا ہمیں کوخبر نہیں ہوتی

ہم نے سب دُکھ جہاں کے دیکھے ہیں
بے کلی اِس قدر نہیں ہوتی

نالہ یوں نا رسا نہیں رہتا
آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی

چاند ہے، کہکشاں ہے، تارے ہیں
کوئی شے نامہ بر نہیں ہوتی

ایک جاں سوز و نامراد خلش
اِس طرف ہے اُدھر نہیں ہوتی

دوستو، عشق ہے خطا لیکن
کیا خطا درگزر نہیں ہوتی؟

رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی

بے قراری سہی نہیں جاتی
زندگی مختصر نہیں ہوتی

ایک دن دیکھنے کو آجاتے
یہ ہوس عمر بھر نہیں ہوتی

حُسن سب کو، خدا نہیں دیتا
ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی

دل پیالہ نہیں گدائی کا
عاشقی در بہ در نہیں ہوتی

ابنِ انشا

یا رب غم ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا .charagh hasan hasrat

یا رب غم ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پر ہے وہ دست دعا ہوتا
اک عشق کا غم آفت اور اس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دیا ہوتا یا دل نہ دیا ہوتا
ناکام تمنا دل اس سوچ میں رہتا ہے
یوں ہوتا تو کیا ہوتا یوں ہوتا تو کیا ہوتا
امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا

ہواؤ اُس کی گلی سے گُزرو تو اُس کو میرا سلام کہنا ۔ امجد اسلام امجد کی خوبصورت نظم

ہواؤ اُس کی گلی سے گُزرو تو اُس کو میرا سلام کہنا
ہواؤ اُس کی گلی سے گُزرو تو اُس کو میرا سلام کہنا

مجھے خبر ہے کہ میرے گھر سے گُزرنے والی ہوا کا رستہ
تہمارے گھر تک نہیں گیا ہے
سلام میرا تمہارے کانوں سے نارسا ہے
میں جانتا ہوں یہ بچپنا ہے
مگر حقیقت کو جان کر بھی نہ جاننے میں عجب مزہ ہے

ہوا سے میں نے یہ پھر کہا ہے
گزر رہے ہیں تمہاری یادوں کے دم سے ہی صبح و شام ، کہنا
ہوائو اُس کی گلی سے گُزرو تو اُس کو میرا سلام کہنا

تمہارے گھر کا کِسے پتا ہے ، ہوا کے رُخ کی کِسے خبر ہے۔۔۔

امجد اسلام امجد

تم آگئے ہو تو کیوں انتظارِ شام کریں ۔ ناصر کاظمی

غزل
تم آگئے ہو تو کیوں انتظارِ شام کریں
کہو تو کیوں نہ ابھی سے کچھ اہتمام کریں

خلوص و مہر وفا لوگ کر چکے ہیں بہت
مرے خیال میں اب اور کوئی کام کریں

یہ خاص و عام کی بیکار گفتگو کب تک
قبول کیجیے جو فیصلہ عوام کریں

ہر آدمی نہیں شائستۂ رموزِ سخن
وہ کم سخن ہو مخاطب تو ہم کلام کریں

جدا ہوئے ہیں بہت لوگ ایک تم بھی سہی
اب اتنی بات پہ کیا زندگی حرام کریں

خدا اگر کبھی کچھ اختیار دے ہم کو
تو پہلے خاک نشیوں کا انتظام کریں

رہِ طلب میں جو گمنام مر گئے ناصرؔ
متاعِ درد انہی ساتھیوں کے نام کریں
ناصر کاظمی

درد پھیل جائے تو ۔ امجد اسلام امجد کی خوبصورت نظم

درد پھیل جائے تو

درد پھیل جائے تو
ایک وقت آتا ہے
دل دھڑکتا رہتا ہے
آذردگزیدوں کے حوصلے نہیں چلتے
دشتِ بے یقینی میں آسرے نہیں چلتے
رہرئوں کی آنکھوں میں
منزلیں نہ جب تک ہوں ، قافلے نہیں چلتے
اک ذرا توجہ سے دیکھئے تو کُھلتا ہے
لوگ اِن پہ چلتے ہیں ، راستے نہیں چلتے
سوچنے ، سمجھنے سے ، ساتھ ساتھ چلنے سے
دوریاں سمٹتی ہیں ، فاصلے نہیں چلتے
خواب خواب آنکھوں میں رتجگے نہیں چلتے
درگُزر کے حلقے میں مسئلے نہیں چلتے
دو دِلوں کی قربت میں تیسرا نہیں ہوتا
''واسطے نہیں چلتے
بخت ساتھ چلتا ہے ، طابع آزمائوں کے
وقت رام کرنے میں ، تجزیوں کے دائو کیا
''تجربے نہیں چلتے
عشق کے علاقے میں ، حُکمِ یار چلتا ہے
ضابطے نہیں چلتے
حُسن کی عدالت میں ، عاجزی تو چلتی ہے
مرتبے نہیں چلتے
دوستی کے رشتوں کی پرورش ضروری ہے
سلسلے تعلق کے خود سے بن تو جاتے ہیں
لیکن اِن شگوفوں کو ٹوٹنے بکھرنے سے 
روکنا بھی پڑتا ہے
چاہتوں کی مٹی کو ، آرزو کے پودوں کو
سینچنا بھی پڑتا ہے
رنجشوں کی باتوں کو ، بھولنا بھی پڑتا ہے

امجد اسلام امجد

اگر کبھی میری یاد ائے . امجد اسلام امجد کی نظم ۔ محبت کی ایک نظم

محبت کی ایک نظم
اگر کبھی میری یاد ائے
تو چاند راتوں کی دِلگیر روشنی میں
کِسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخلِ فلک سے اُڑ کر تمہارے قدموں میں آ گِرے تو
یہ جان لینا
وہ استعارہ تھا میرے دِل کا
اگر نہ آئے
مگر یہ ممکن ہی کِس طرح ہے
کہ تم کِسی پر نگاہ ڈالو
تو اُس کی دیوارِ جاں نہ ٹوٹے
وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے
اگر کبھی میری یادآئے
گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خوشبوئوں میں تمہیں مِلوں گا
مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
میں اَوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں مِلوں گا
اگر ستاروں میں، اوس قطروں میں ، خوشبوئوں میں نہ پائو مجھ کو
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا
میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں مِلوں گا
کہیں پہ روشن چراغ دیکھو تو جان لینا
کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی بِکھر چُکا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے اُن پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا
میں خاک بن کر سمندروں میں سفر کروں گا
کِسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ رُک کے تم کو صدائیں دوں گا
سمندروں کے سفر پہ نکلو تو اُس جزیرے پہ بھی اُترنا
اگر کبھی میری یاد آئے۔۔۔

امجد اسلام امجد
امجد اسلام امجد کی خوبصورت نظم درد پھیل جائے تو کلک کریں