اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

ہفتہ، 6 فروری، 2016

نظر نظر بیقرار سی ہے نفس نفس میں شرار سا ہے ۔ ساغر صدیقی

نظر نظر بیقرار سی ہے نفس نفس میں شرار سا ہے
میں جا نتا ہوں کہ تم نہ آؤگے پھر بھی کچھ انتظار سا ہے

مرے عزیزو! میرے رفیقو! چلو کوئی داستان چھیڑو
غم زمانہ کی بات چھوڑو یہ غم تو اب سازگار سا ہے

وہی فسر دہ سا رنگ محفل وہی ترا ایک عام جلوہ
مری نگاہوں میں بار سا تھا مری نگا ہوں میں بار سا ہے

کبھی تو آؤ ! کبھی تو بیٹھو! کبھی تو دیکھو! کبھی تو پوچھو
تمہاری بستی میں ہم فقیروں کا حال کیوں سوگوار سا ہے

چلو کہ جشن بہار دیکھیں چلو کہ ظرف بہار جا نچیں
چمن چمن روشنی ہوئی ہے کلی کلی پہ نکھار سا ہے

یہ زلف بر دوش کون آیا یہ کس کی آہٹ سے گل کھلے ہیں
مہک رہی ہے فضائے ہستی تمام عالم بہار سا ہے

ساغر صدیقی

اس نہیں کا کوئ علاج نہیں ۔ داغ دہلوی

اس نہیں کا کوئی علاج نہیں
روز کہتے ہیں آپ آج نہیں
کل جو تها آج وہ مزاج نہیں
اس تلوان کا کچھ علاج نہیں
کهوٹے داموں میں یہ بھی کیا ٹهرا
در ہم داغ کا رواج نہیں
دل لگی کیجئے رقیبوں سے
اس طرح کا مرا مزاج نہیں
عشق ہے بادشاہ عالم گیر
گر چہ ظاہر میں تخت و تاج نہیں
حور سے پوچھتا ہوں جنت میں
اس جگہ کیا بتوں کا راج نہیں
صبر بھی دل کو داغ دے لیں گے
ابھی کچھ اس کی احتیاج نہیں
داغ دہلوی

کچھ اس ادا سے آج وه پہلو نشیں رہے ۔ جگر مراد آبادی

کچھ اس ادا سے آج وه پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے، ہم نہیں رہے

یا رب کسی کی راز محبت کی خیر ہو
دست جنوں رہے نه رہے، آستیں رہے

درد غــم فـــراق کے یه سخت مــرحلیں
حیراں ہوں میں که پهر بهی تم اتنے حسیں رہے

جا اور کوئی ضبط کی دنیا تلاش کر
اے عشق ہم تو اب تیرے قابل نہیں رہے

الله رے چشم یار کے موجز بیانیاں
ہر ایک کا ہے گمان که مخاطب ہمیں رہے

اس عشق کے تلافی مافات دیکهنا
رونے کے حسرتیں ہیں جب آنسو نہیں رہے

ایمان و کفر اور نه دنیا و دین رہے
اے عشق شادباش که تنها ہمیں رہے

جگر مرادآبای


Kuch Is Ada Se Aaj Wo Pehlo Nasheen Rahe - Jigar moradabadi


ہجر کرتے یا کوئی وصل گزارا کرتے ۔ عبید اللہ علیم

ہجر کرتے یا کوئی وصل گزارا کرتے
ہم بہرحال بسر خواب تمھارا کرتے

ایک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم
خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارا کرتے

اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمھاری خاطر
اتنی دور آ گئے دنیا سے کنارا کرتے

محوِ آرائشِ رُخ ہے وہ قیامت سرِ بام
آنکھ اگر آئینہ ہوتی تو نظارا کرتے

ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے
کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارا کرتے

جب ہے یہ خانہ ء دل آپکی خلوت کے لئے
پھر کوئی آئے یہاں ، کیسے گوارا کرتے

کون رکھتا ہے اندھیرے میں دیا آنکھ میں خواب
تیری جانب ہی ترے لوگ اشارا کرتے

ظرفِ آئینہ کہاں اور ترا حسن کہاں
ہم ترے چہرے سے آئینہ سنوارا کرتے
عبید اللہ علیم

وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں​ ۔ عبد المجید عدم

وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں​
آدمی بے نظیر ہوتے ہیں​

تیری محفل میں بیٹھنے والے​
کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں​

پھول دامن میں چند رکھ لیجئے​
راستے میں فقیر ہوتے ہیں​

زندگی کے حسین ترکش میں​
کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں​

وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں​
سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں​

دیکھنے والا اک نہیں ملتا​
آنکھ والے کثیر ہوتے ہیں​

جن کو دولت حقیر لگتی ہے​
اُف! وہ کتنے امیر ہوتے ہیں​

جن کو قدرت نے حسن بخشا ہو​
قدرتاً کچھ شریر ہوتے ہیں​

ہے خوشی بھی عجیب شے لیکن​
غم بڑے دلپذیر ہوتے ہیں​

اے عدم احتیاط لوگوں سے​
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں​

عبدالحمید عدم​

سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا - جوش ملیح آبادی غزل

جوش ملیح آبادی

سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا

وە کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوە
جن کو تیری نگہِ لطف نے برباد کیا

دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے سونے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا

اسکا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اسکا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا

اتنا معصوم ہوں فطرت سے کلی جب چٹکی
جھک کے میں نے کہا مجھ سے کچھ ارشاد کیا ؟

میری ہر سانس ہے اس بات کی شاھد اے موت
میں نے ہر لطف کے موقعہ پہ تجھے یاد کیا

مجھکو تو ہوش نہیں تجھ کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تو نے مجھے برباد کیا

وە تجھے یاد کرے جس نے بھلایا ہو تجھے
ہم نے تجھ کو بھلایا نہ کبھی یاد کیا

کچھ نہیں اس کے سوا جوش حریفوں کا کلام
وصل نے شاد کیا ہجر نے ناشاد کیا

درد کم ہونے لگا، آؤ ــ کہ کچھ رات کٹے . ناصر کاظمی

درد کم ہونے لگا، آؤ ــ کہ کچھ رات کٹے
غم کی معیاد بڑھاؤ ــ کہ کچھ رات کٹے

ہجر میں آہ و بکا رسمِ کہن ہے لیکن
آج یہ رسم ہی دہراؤ ــ کہ کچھ رات کٹے

یوں تو تم روشنیِ قلب و نظر ہو لیکن ــــــ
آج وہ معجزہ دِکھلاؤ ــ کہ کچھ رات کٹے

دل دکھاتا ہے وہ مل کر بھی مگر آج کی رات
اسی بے درد کو لے آؤ ــ کہ کچھ رات کٹے

دم گھٹا جاتا ہے افسردہ دلی سے یارو
کوئی افواہ ہی پھیلاؤ ــ کہ کچھ رات کٹے

میں بھی بیکار ہوں ـــــ اور تم بھی ہو ویران بہت
دوســـــــتو ! آج نہ گھر جاؤ ــ کہ کچھ رات کٹے

چھوڑ آئے ہو سرِ شام اسے کیوں ناصرؔ
اُسے پھر گھر سے بلا لاؤ ــ کہ کچھ رات کٹے
ناصر کاظمی

منگل، 2 فروری، 2016

تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا ۔ مرزا غالب


تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا 
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا 
چھوڑا مہِ نخشب کی طرح دستِ قضا نے 
خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا 
توفیق بہ اندازۂ ہمت ہے ازل سے 
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا 
جب تک کہ نہ دیکھا تھا قدِ یار کا عالم 
میں معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا 
میں سادہ دل، آزردگیِ یار سے خوش ہوں 
یعنی سبقِ شوقِ مکرّر نہ ہوا تھا 
دریائے معاصی تُنک آبی سے ہوا خشک 
میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا 
جاری تھی اسدؔ! داغِ جگر سے مری تحصیل 
آ تشکدہ جاگیرِ سَمَندر نہ ہوا تھا

وہ فراق اور وہ وصال کہاں ۔ مرزا غالب




وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں​

فرصتِ کاروبارِ شوق کِسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں​

دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں​

تھی وہ اِک شخص کے تصّور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں​

ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں‌ طاقت، جگر میں حال کہاں​

ہم سے چُھوٹا قمار خانۂ عشق 
واں جو جاویں، گرہ میں مال کہاں​

فکرِ دُنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں​

مضمحل ہو گئے قویٰ غالب
وہ عناصر میں اعتدال کہاں​

اسد الله خاں غالب​

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا ​۔ مرزا غالب




یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا ​
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا​

تِرے وعدے پر جِئے ہم، تو یہ جان، جُھوٹ جانا​
کہ خوشی سے مرنہ جاتے، اگراعتبار ہوتا​

تِری نازُکی سے جانا کہ بندھا تھا عہدِ بُودا​
کبھی تو نہ توڑ سکتا، اگراستوار ہوتا​

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نِیمکش کو​
یہ خلِش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا​

یہ کہاں کی دوستی ہےکہ، بنے ہیں دوست ناصح​
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا​

رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہوکہ، پھر نہ تھمتا​
جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا​

غم اگرچہ جاں گُسل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے​
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا​

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شبِ غم بُری بلا ہے​
مجھے کیا بُرا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا​

ہوئے مرکے ہم جو رُسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا ​
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا​

اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا​
جو دوئی کی بُو بھی ہوتی توکہیں دوچار ہوتا​

یہ مسائلِ تصّوف، یہ ترا بیان، غالبؔ​
تجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا​

مرزا اسداللہ خاں غالب​