اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

ہفتہ، 16 مارچ، 2013

Ameer meenai امیر مینائی





ایک دل، ہمدم مرے پہلو سے کیا جاتا رہا
سب تڑپنے تلملانے کا مزا جاتا رہا

سب کرشمے تھے جوانی کے، جوانی کیا گئی
وہ اُمنگیں مِٹ گئیں، وہ ولوَلا جاتا رہا

درد باقی، غم سلامت ہے، مگر اب دل کہاں
ہائے وہ غمِ دوست، وہ درد آشنا جاتا رہا

آنے والا، جانے والا، بیکسی میں کون تھا
ہاں مگر اک دم، غریب آتا رہا جاتا رہا

آنکھ کیا ہے، موہنی ہے، سحر ہے، اعجاز ہے
اک نگاہِ لطف میں سارا گِلا جاتا رہا

جب تلک تم تھے کشیدہ، دل تھا شکووں سے بھرا
تم گَلے سے مِل گئے، سارا گلا جاتا رہا

کھو گیا دل کھو گیا، رہتا تو کیا ہوتا، امیر
جانے دو اک بے وفا جاتا رہا جاتا رہا
(امیر مینائی)

پیر، 23 جولائی، 2012

تری اُمید ترا انتظار جب سے ہے : فیض احمد فیض Faiz Ahmad Faiz


تری اُمید ترا انتظار جب سے ہے : فیض احمد فیض

تری اُمید ترا انتظار جب سے ہے

نہ شب کو دن سے شکایت، نہ دن کو شب سے ہے

کس کا درد ہو کرتے ہیں ہم تیرے نام رقم

گِلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے

ہُوا ہے جب سے دلِ نا صبُور بے قابو

کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے

اگر شرر ہے تو بھڑکے، جو پھول ہے تو کھِلے

طرح طرح کی طلب، تیرے رنگِ لب سے ہے

کہاں گئے شبِ فرقت کے جاگنے والے

ستارۂ سحری ہم کلام کب سے ہے

احمد ندیم قاسمی Ahmad Nadeem Qasmi


شعوُر میں، کبھی احساس میں بساؤں اُسے
مگر مَیں چار طرف بے حجاب پاؤں اُسے

اگرچہ فرطِ حیا سے نظر نہ آؤں اُسے
وہ رُوٹھ جائے تو سو طرح سے مناؤں اُسے

طویل ہجر کا یہ جبر ہے، کہ سوچتا ہوں
جو دل میں بستا ہے، اب ہاتھ بھی لگاؤں اُسے

اُسے بلا کے مِلا عُمر بھر کا سناّٹا
مگر یہ شوق، کہ اِک بار پھر بلاؤں اُسے

اندھیری رات میں جب راستہ نہیں مِلتا
مَیں سوچتا ہوں، کہاں جا کے ڈھوُنڈ لاؤں اُسے

ابھی تک اس کا تصوّر تو میرے بس میں ہے
وہ دوست ہے، تو خدا کِس لیے بناؤں اُسے

ندیم ترکِ محبت کو ایک عُمر ہوئی
مَیں اب بھی سوچ رہا ہوں، کہ بُھول جاؤں اُسے

احمد ندیم قاسمی

مظفر وارثی Muzafar warsi


قانون ِ تقاضہ پہ عمـــــــــــــــــل کیوں نہیں ہوتا
جس ہاتھ میں پتھر ہے وہ شل کیوں نہیں ہوتا

بچہ ہے غریبوں کا تو کچھ اس کا بھی حق ہے
کیچڑ میں پلا ہے تو کنــــــــــول کیوں نہیں ہوتا

سلطان و گدا دونوں ہی مٹی کی غذا ہیں
ہر قبر پہ اک تاج محـــــــــل کیوں نہیں ہوتا

سچائی کا اعلان تو کرتی ہیں زبانـــــــــیں
اس پیڑ پہ لیکن کوئی پھل کیوں نہیں ہوتا

کردار سے کیوں بوئے محبــــــت نہیں آتی
یہ ذہر ہے تو خون میں حل کیوں نہیں ہوتا

ٹلتے ہی چلے جاتے ہیں کیوں اپنے ارادے
جو آج نہ ہو کام وہ کل کـــــــــیوں نہیں ہوتا

تخلیق ضرورت کا ادب کیوں نہیں کرتــی
نوحہ بھی مظفر کا غزل کیوں نہیں ہوتا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مظفر وارثی

پروین شاکر Parveen Shakir


پروین شاکر

ا پنی رسوائی تیرے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

نیند آجائے تو کیا محفلیں پرپا دیکھوں
آنکھ کُل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکوں

شام بھی ہو گئی دھندلا گئیں آنکھیں بھی مری
جانے والے میں کب تک تیرا رستہ دیکھوں

سب ضدیں اس کی میں پوری کرو ہر بات سُنو
ایک بچے کی طرح سے اسے ہنستا دیکھوں

مجھ پہ چھا جائے وہ بارش کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اُسی رُت میں مہکتا دیکھوں

تُو میری طرح سے یکتا ہے مگر میرے حبیب
جی میں آتا ہے کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں

میں نے جس لمحے کو پُوجا ہے اسے بس اک بار
خواب بن کر تیری آنکھ میں اُترتا دیکھوں

دیوان ِ غالبؔ سے نعتیہ اشعار کا انتخاب Naat e nabi Mirza Ghalib

دیوان ِ غالبؔ سے نعتیہ اشعار کا انتخاب

1:۔ اس کی امت میں ہوں میں، میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شہ ﷺ کے، غالبؔ! گنبدِ بے در کھلا

2:۔کل کیلئے کر آج نہ خست شراب میں
یہ سوءِ ظن ہے ساقیِ کوثرﷺ کے با ب میں

3:۔ یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے!
کہ غیر جلوہء گل ، رہگزر میں خاک نہیں

4:۔ بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے
غلامِ ساقیِ کوثرﷺ ہوں، مجھ کو غم کیا ہے

5:۔ پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر بارِ منتِ درباں کیے ہوئے

6:۔ زباں پہ بارِ خدایا! یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے میری زباں کے لیے

سید واصف علی واصف Wasif Ali Wasif


نعتِ رسولِ مقبول ﷺ

انوار برستے رہتے ہیں، اُس پاک نگر کی راہوں میں
اِک کیف کا عالم ہوتا ہے، طیبہ کی مست ہواؤں میں
اس نامِ محمدﷺ کے صدقے، بگڑی ہوئی قسمت بنتی ہے
اُس کو بھی پناہ مل جاتی ہے، جو ڈُوب چکا ہو گناہوں میں
گیسوئے محمدﷺ کی خُوشبو، اللہ! اللہ! کیا خُوشبو ہے
احساس معطّر ہوتا ہے، واللّیل کی مہکی چھاؤں میں
وہ بانئ دِینِ مُبین بھی ہے، حٰم بھی ہے، یٰسین بھی ہے
مسکینوں میں مسکین بھی ہے، سلطانِ زمانہ شاہوں میں
سب جلوے ہیں اس صورت کے، وہ صورت ہی وجہہ اللہ ہے
اللہ نظر آ جاتا ہے، وہ صورت جب ہو نگاہوں میں
اللہ کی رحمت کے جلوے، اس وقت میسّر ہوتے ہیں
سجدے میں ہوں جب آنکھیں پُرنم اور نامِ محمدﷺ آہوں میں
اُس ناطقِ قرآں کی مِدحت، انسان کے بس کی بات نہیں
ممدوحِ خدا ہیں وہ واصف! صد شکر کہ ہم ہیں گداؤں میں
سید واصف علی واصف


علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ Allana Iqbal


اتوار، 22 جولائی، 2012

حضرت موسیٰ علیہ السلام کچھ حیران ہوئے اور اس قصاب کی تلاش میں چل پڑے وہاں دیکھا تو ایک قصاب اپنی دوکان میں گوشت بیچنے میں مصروف تھا ، اپنا کاروبار ختم کر کے اس نے ایک گوشت کا ٹکڑا ایک کپڑے میں لپیٹا اور گھر کی طرف روانہ ہو گیا ،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس قصاب کے بارے میں مزید جاننے کیلئے بطور مہمان گھر چلنے کی اجازت چاہی۔



حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک دفعہ اللہ تعالیٰ سے پوچھا میرے ساتھ جنت میں کون ہو گا ؟

ارشاد ہوا "فلاں قصاب تمہارے ساتھ ہو گا"

حضرت موسیٰ علیہ السلام کچھ حیران ہوئے اور اس قصاب کی تلاش میں چل پڑے وہاں دیکھا تو ایک قصاب اپنی دوکان میں گوشت بیچنے میں مصروف تھا ، اپنا کاروبار ختم کر کے اس نے ایک گوشت کا ٹکڑا ایک کپڑے میں لپیٹا اور گھر کی طرف روانہ ہو گیا ،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس قصاب کے بارے میں مزید جاننے کیلئے بطور مہمان گھر چلنے کی اجازت چاہی۔

گھر پہنچ کر قصاب نے گوشت پکایا پھر روٹی پکا کر اسکے ٹکڑے شوربے میں نرم کیے اور دوسرے کمرے میں چلا گیا ،جہاں ایک انتہائی کمزور بڑھیا پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی ، قصاب نے بمشکل تمام اسے سہارا دیکر اٹھایا ، ایک ایک لقمہ اسکے منہ میں دیتا رہا ، جب اس نے کھانا تمام کیا تو اس نے بڑھیا کا منہ صاف کر دیا کھانا کھا کر بڈھیا نے قصاب کے کان میں کچھ کہا ، جسے سن کر قصاب مسکرا دیا ، اور بڑھیا کو واپس لٹا کر باہر آ گیا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام جو یہ سب دیکھ رہے تھے ، آپ نے قصاب سے پوچھا یہ عورت کون ہے اور اس نے تیرے کان میں کیا کہا جس پر تو مسکرا دیا ؟
قصاب بولا اے اجنبی ! یہ عورت میری ماں ھے ، گھر پر آنے کے بعد میں سب سے پہلے اس کے کام کرتا ہوں تو خوش ہو کر روز مجھے یہ دعا دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے جنت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ رکھے اور میں مسکرا دیتا ہوں کہ میں کہاں اور موسیٰ کلیم اللہ کہاں.. ؟

محسن نقوی



محسن نقوی

گِلا نہیں کوئی تجھ سے جو تُو دکھائی نہ دے
وہ تیرگی ہے کہ کچھ بھی مجھے سجھائی نہ دے

بُھلا دے اے میرے گھر کی اُداس رات مجھے
کہ وحشتِ سرِ صحرا مجھے رہائی نہ دے

تیرے وصال کی صبحوں کا رنگ کیا ہو گا؟
یہ سوچنے کی فراغت شبِ جدائی نہ دے

تیرا وجود اگر ہے تو اب نقاب اُٹھا
میں تھک گیا ہُوں مجھے زخمِ نارسائی نہ دے

میں جھوٹ بول رہا ہُوں کہ معتبر ٹھہروں
جو سچ کہوں تو زمانہ میری صفائی نہ دے

رگوں سے خون جو پُھوٹے تو کوئی خط لکھوں
کہ میری آنکھ تو لکھنے کو روشنائی نہ دے

میری زباں پہ تِری مصلحت کے پہرے ہیں
میرے خدا مجھے الزامِ بے نوائی نہ دے

کوئی بھی دُشمنِ جاں ہو مجھے قبول مگر
میں اپنے مصر کا یوسف ہوں مجھ کو بھائی نہ دے

سکوتِ دشت کی ہیبت ہے یا خموشیِ مرگ
خود اپنی چیخ بھی محسن مجھے سُنائی نہ دے


محسن نقوی
*****

محسن نقوی

کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ لہو کی ساری تمازتیں
تمہیں دھوپ دھوپ سمیٹ لیں
تمہں رنگ رنگ نکھار دیں
تمہیں حرف حرف میں سوچ لیں
تمہیں دیکھنے کا جو شوق ہو
تو دیارِ ہجر کی تیرگی کو
مژہ کی نوک سے نوچ لیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ دل و نظر میں اُتر سکو
کبھی حد سے حبسِ جنوں بڑ ہے
تو حواس بن کے بکھر سکو
کبھی کھِل سکو شبِ وصل میں
کبھی خونِ جگر میں سنور سکو
سرِ رہگزر جو ملو کبھی
نہ ٹھہر سکو نہ گزر سکو
مرا درد پھر سے غزل بنے
کبھی گنگناؤ تو اس طرح
مرے زخم پھر سے گلاب ہوں
کبھی مسکراؤ تو اس طرح
مری دھڑکنیں بھی لرز اٹھیں
کبھی چوٹ کھاؤ تو اس طرح
جو نہیں تو پھر بڑے شوق سے
سبھی رابطے سبھی ضابطے
کسی دھوپ چھاؤں میں توڑ دو
نہ شکستِ دل کا ستم سہو
نہ سنو کسی کا عذابِ جاں
نہ کسی سے اپنی خلش کہو
یونہی خوش پھرو، یونہی خوش رہو
نہ اُجڑ سکیں ، نہ سنور سکیں
کبھی دل دُکھاؤ تو اس طرح
نہ سمٹ سکیں ، نہ بکھر سکیں
کبھی بھول جاؤ تو اس طرح
کسی طور جاں سے گزر سکیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!!
کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!!
*****

محسن نقوی

میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسمان کا ہے
کہ ٹوٹ کر بھی میرا حوصلہ چٹان کا ہے 

بُرا نہ مان میرے حرف زہر زہر سہی
میں کیا کروں کہ یہی ذائقہ زبان کا ہے

ہر ایک گھر پہ مسلط ہے دِل کی ویرانی
تمام شہر پہ سایہ میرے مکان کا ہے

بچھڑتے وقت سے اب تک میں یوں نہیں رویا
وہ کہہ گیا تھا یہی وقت امتحان کا ہے

مسافروں کی خبر ہے نہ دُکھ ہے کشتی کا
ہوا کو جتنا بھی غم ہے وہ بادبان کا ہے

یہ اور بات عدالت ہے بے خبر ورنہ
تمام شہر میں چرچہ میرے بیان کا ہے

اثر دِکھا نہ سکا اُس کے دل میں اشک میرا
یہ تیر بھی کسی ٹوٹی ہوئی کمان کا ہے

بچھڑ بھی جائے مگر مجھ سے بدگمان بھی رہے
یہ حوصلہ ہی کہاں میرے بدگمان کا ہے

قفس تو خیر مقدر میں تھا مگر محسن
ہوا میں شور ابھی تک میری اُڑان کا ہے
 ******
اتنی مدت بعد ملے ہو
کن سوچوں میں گم پھرتے ہو؟

اتنے خائف کیوں رہتے ہو؟
ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو

تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا
ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو؟

کاش کوئی ہم سے بھی پوچھے
رات گئے تک کیوں جاگے ہو؟

میں دریا سے بھی ڈرتا ہوں
تم دریا سے بھی گہرے ہو!

کون سی بات ہے تم میں ایسی
اتنے اچھے کیوں لگتے ہو؟

پیچھے مڑ کو کیوں دیکھا تھا
پتھر بن کر کیا تکتے ہو؟

جاؤ جیت کا جشن مناؤ
میں جھوٹا ہوں ، تم سچے ہو!

اپنے شہر کے سب لوگوں سے
میری خاطر کیوں الجھے ہو؟

کہنے کو رہتے ہو دل میں
پھر بھی کتنے دور کھڑے ہو

رات ہمیں کچھ یاد نہیں تھا
رات بہت ہی یاد آئے ہو!

ہم سے نہ پوچھو ہجر کے قصے
اپنی کہو اب تم کیسے ہو؟

محسن تم بدنام بہت ہو
جیسے ہو، پھر بھی اچھے ہو