اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

منگل، 9 مارچ، 2021

چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے / احمد فراز غزل Chalo Woh Ishq Nahi Chahne Ki Aadat Hai - Ahmad Faraz Ghazal

چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے / احمد فراز غزل Chalo Woh Ishq Nahi Chahne Ki Aadat Hai - Ahmad Faraz Ghazal - Ahmad Faraz Shayari

چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے

یہ کیا کریں کہ ہمیں ڈوبنے کی عادت ہے


تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ کر ضائع

میں آئینہ ہو مجھے ٹوٹنے کی عادت ہے


میں کیاکہوں کہ مجھے صبر کیوں نہیں آتا

میں کیا کروں کہ تجھے دیکھنے کی عادت ہے


تیرے نصیب میں اے دل صدا کی محرومی

نہ وہ سخی نہ تجھے مانگنے کی عادت ہے


وِصال میں بھی وہی ہے فِراق کا عالم

کہ سکو نیند مجھے رَت جَگے کی عادت ہے


یہ مشکلیں تو پھر کیسے راستے طے ہوں

میں نا صبُور اسے سوچنے کی عادت ہے


یہ خود اذیتی کب تک فراز تو بھی اسے

نہ یاد کر کہ جسے بھولنے کی عادت ہے

احمد فراز

تری امید ترا انتظار جب سے ہے - فیض احمد فیض غزل - Teri Umeed Tera Intizar Jab Se Hai - Faiz Ahmad Faiz Ghazal

 Teri Umeed Tera Intizar Jab Se Hai - Faiz Ahmad Faiz Ghazal 


تری امید ترا انتظار جب سے ہے

نہ شب کو دن سے شکایت ، نہ دن کو شب سے ہے


کسی کا درد ہو کرتے ہیں تیرے نام رقم

گلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے


ہوا ہے جب سے دلِ ناصبُور بے قابو

کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے


اگر شرر ہے تو بھڑکے،جو پھول ہے تو کھلے

طرح طرح کی طلب، تیرے رنگِ لب سے ہے


کہاں گئے    شبِ فرقت کے جاگنےوالے

ستارہ ءِ سحری    ہم کلام کب سے ہے


فیض احمد فیض

چلو اب ایسا کرتے ہیں ستارے بانٹ لیتے ہیں - فیض احمد فیض غزل

Chalo Ab Aisa Karte Hain Sitare Bant Lete Hain - Faiz Ahmad Faiz Ghazal 


چلو اب ایسا کرتے ہیں ستارے بانٹ لیتے ہیں

ضرورت کے مطابق ہم سہارے بانٹ لیتے ہیں

محبت کرنے والوں کی تجارت بھی انوکھی ہے

منافع چھوڑ دیتے ہیں خسارے بانٹ لیتے ہیں

اگر ملنا نہیں ممکن تو لہروں پر قدم رکھ کر

ابھی دریا ئے الفت کے کنارے بانٹ لیتے ہیں

میری جھولی میں جتنےبھی وفا کے پھول ہیں ان کو

اکھٹے بیٹھ کر سارے کے سارے بانٹ لیتے ہیں

محبت کے علاوہ پاس اپنے کچھ نہیں ہے فیض

اسی دولت کو ہم قسمت کے مارے بانٹ لیتے ہیں

اپنی محبت کے افسانے کب تک راز بناؤ گے - احمد فراز شاعری - احمد فراز غزل - Apni Mohabbat Ke Afsane

اپنی محبت کے افسانے کب تک راز بناؤ گے

رسوائی سے ڈرنے والو ، بات تمہیں پھیلاؤ گے

اس کا کیا ہے تم نہ سہی تو چاہنے والے اور بہت

ترکِ محبت کرنے والو ، تم تنہا رہ جاؤ گے

ہجر کے ماروں کی خوش فہمی ، جاگ رہے ہیں پہروں سے

جیسے یوں شب کٹ جائے گی ، جیسے تم آ جاؤ گے

زخمِ تمنا کا بھر جانا گویا جان سے جانا ہے

اس کا بھلانا سہل نہیں ہے ، خود کو بھی یاد آؤ گے

چھوڑ عہدِ وفا کی باتیں ، کیوں جھوٹے اِقرار کریں

کل میں بھی شرمندہ ہوں گا ، کل تم بھی پچھتاؤ گے

رہنے دو یہ پَند و نصیحت ، ہم بھی فراز سے واقِف ہیں

جس نے خود سو زخم سہے ہوں ، اس کو کیا سمجھاؤ گے

احمد فراز