اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

منگل، 9 فروری، 2016

فردِ جرم .. کھلی جو وحدت کی بند مٹُھی ... شبنم رومانی کی ایک خوبصورت نظم

فردِ جرم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھلی جو وحدت کی بند مٹُھی
بکھر گئے کثرتوں کے نشتر
چپک گئے رنگ انگلیوں سے
اور اُن کے پوروں سے رسنے والے لہو نے تاریخِ درد لکھّی
نقاب پوشوں کے ننگِ انسانیت جرائم کی فرد لکھّی
گرا جو وہ ہاتھ سرد ہو کر
تو اک جھناکے سے تار ٹوٹے ربابِ جاں کے
کھُلے دریچے سب آسماں کے
اور ان دریچوں سے محوِ حیرت فرشتگانِ خدا نے دیکھا
کہ روحِ قابیل اپنی وحشت پہ ہنس رہی ہے
زمیں ندامت سے دھنس رہی ہے
فرشتگانِ خدا نے دیکھا
کہ مردہ جسموں میں روحِ تازہ سمونے والے کو 
لوگ مصلوب کر رہے ہیں
گناہِ محسن کُشی سے خود کو
خدا کا معتوب کر رہے ہیں
انھوں نے دیکھا
کہ زندگی کے شجر کو بد بخت لوگ آرے سے کاٹتے ہیں
خود اپنی دیوارِ مہرباں کو سیہ زبانوں سے چاٹتے ہیں
فرشتگانِ خدا نے گھبرا کے یہ بھی دیکھا
کہ دشتِ کرب و بلا میں
شمرِ سیاہ طینت
حسیں اُجالوں کو ڈس رہا ہے
حُسین کے پاک خوں کا پیاسا
عذابِ محسوس بن کے اپنی ہی عاقبت پر برس رہا ہے
فلک کے حیرت زدہ دریچوں سے سر نکالے
فرشتگانِ خدا نے دیکھا
کہ وہ جو ہر وہمٗ ہر گماں کو مٹا کے اُٹّھا
جو نسخۂ کیمیا کوٗ 
قرآں کوٗ
اپنے دل سے لگا کے اُٹّھا
اُٹھا اور اُس نے برادرانِ وطن کو اپنا سلام بھیجا
مگر جواباً
کیا گیا اُس کا شق کلیجہ
قسم مجھے اُس کے بانکپن کی
۔برادرانِ وطن کے پیراہنوں میں
خوشبو ہے اُس بدن کی
فضا میں اُس کے یہ آخری لفظ تیرتے ہیں
یہی اک آواز گونجتی ہے
قسم مجھے اُس کے بانکپن کی
یہی صدا ہے مرے سخن کی
۔خدا حفاظت کرے وطن کی۔
۔خدا حفاظت کرے وطن کی۔
شبنمؔ رومانی

منتخب غزلیں ۔ مشہور شعرا کا کلام ایک ہی جگہ پر ۔ مشہور غزلیں

دنوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ گم گزار کے
ویراں ہے میلدہ ، خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
اک فرصتِ گناہ ملی ، وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیض
مت پوچھ ولولے دلِ ناکردہ کار کے
فیض احمد فیض
***
اسداللہ خاں غالب ​

دلِ ناداں تُجھے ہُوا کیا ہے​
آخر اِس درد کی دوا کیا ہے​

ہم ہیں مُشتاق اور وہ بیزار​
یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے​

میں بھی منْہ میں زبان رکھتا ہوں​
کاش پُوچھو، کہ مُدّعا کیا ہے​

جب کہ تُجھ بِن نہیں کوئی موجُود​
پھر یہ ہنگامہ، اے خُدا کیا ہے​

یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں​
غمزہ وعشوہ و ادا کیا ہے​

سبزہ و گُل کہاں سے آئے ہیں​
ابْر کیا چیز ہے، ہَوا کیا ہے​

ہم کو اُن سے وفا کی ہے اُمیّد​
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے​

ہاں بَھلا کر تِرا بَھلا ہو گا​
اور درویش کی صدا کیا ہے​

جان تم پر نِثار کرتا ہوں​
میں نہیں جانتا دُعا کیا ہے​

میں نے مانا کہ کچُھ نہیں غالب​
مُفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے

پیر، 8 فروری، 2016

دیارِ نور میں تیِرہ شبوں کا ساتھی ہو ۔ افتخار عارف

دیارِ نور میں تیِرہ شبوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو

میں اُس سے جھوٹ بھی بولو ں تو مجھ سے سچ بولے
مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو

میں اس کے ہاتھ نہ آؤں وہ میرا ہو کے رہے
میں گِر پڑوں تو مری پستیوں کا ساتھی ہو

وہ میرے نام کی نِسبت سے مُعتبر ٹھہرے
گلی گلی مری رُسوائیوں کا ساتھی ہو

کرے کلام جو مجھ سے تو میرے لہجے میں
میں چپ رہوں تو میرے تیوروں کا ساتھی ہو

میں اپنے آپ کو دیکھوں وہ مجھ کو دیکھے جائے
وہ میرے نفس کی گمراہیوں کا ساتھی ہو!

وہ خواب دیکھے تو دیکھے مرے حوالے سے
مرے خیال کے سب منظروں کا ساتھی ہو

دن گزرا آشفتہ سر خاموش ہوئے ۔۔۔ افتخار عارف

دن گزرا آشفتہ سر خاموش ہوئے
شام ہوئی اور بام و در خاموش ہوئے

شام ہوئی اور سورج رستہ بھول گیا
کیسے ہنستے بستے گھر خاموش ہوئے

بولتی آنکھیں چپ دریا میں ڈوب گئیں
شہر کے سارے تہمت گر خاموش ہوئے

کیسی کیسی تصویروں کے رنگ اڑے
کیسے کیسے صورت گر خاموش ہوئے

کھیل تماشا بربادی پر ختم ہوا
ہنسی اڑا کر بازی گر خاموش ہوئے

کچی دیواریں بارش میں بیٹھ گئیں
بیتی رت کے سب منظر خاموش ہوئے

ابھی گیا ہے کوئی مگر یوں لگتا ہے
جیسے صدیاں بیتیں گھر خاموش ہوئے

سوچتا ہوں کےمحبت سے کنارا کر لَوں ۔۔۔ ساحر لدھیانوی

ساحر لدھیانوی
سوچتا ہوں کےمحبت سے کنارا کر لَوں
دل کو بیگانہء ترغیبِ تمنا کر لوں
سوچتا ہوں کہ محبتہے جنونِ رسوا
چند بے کار سے بیہودہ خیالوں کا ہجوم
ایک آزاد کو پابند بنانے کی ہوس
ایک بیگانے کو اپنانے کی سعیِ موہوم
سوچتا ہوں کہ محبت ہے سرور و مستی
اس کا مٹ جانا مٹا دینا بہت مشکل ہے
سوچتا ہوں کے محبت سے ہے تابندہ حیات
اور یہ شمع بجھا دینا بہت مشکل ہے
سوچتا ہوں کہ محبت پہ کڑی شرطیں ہیں
اس تمدن میں مسرت پہ بڑی شرطیں ہیں
سوچتا ہوں کہ محبت ہے اک افسردہ سی لاش
چادرِ عزت و ناموس میں کفنائی ہوئی
دورِ سرمایہ کی روندی ہوئی رسوا ہستی
درگاہِ مذہب و اخلاق سے ٹھکرائی ہوئی
سوچتا ہوں کہ بشر اور محبت کا جنوں
ایسے بوسیدہ تمدن میں ہے اِک کارِ زبوں
سوچتا ہوں کہ محبت نہ بچے گی زندہ
پیش از وقت کہ سڑ جائے یہ گلتی ہوئی لاش
یہی بہتر ہے کہ بیگانہء اَلفت ہو کر
اپنے سینے میں کروں جذبہء نفرت کی تلاش
سوچتا ہوں کہ محبت سے کنارا کر لوں
خود کو بیگانہء ترغیبِ تمنا کر لوں

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے ۔ ساحر لدھیانوی کا ایک خوبصورت گیت

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے 
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے 
کے جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے
تو اب سے پہلے ستاروں میں بس رہی تھی کہیں 
تجھے زمین پہ بلایا گیا ہے میرے لیے
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے 
کے یہ بدن یہ نگاہیں میری امانت ہیں
یہ گیسوئوں کی گھنی چھاؤں ہیں میری خاطر 
یہ ہونٹ اور یہ بانہیں میری امانت ہیں
کے جیسے بجتی ہے شہنائیاں سے راہوں میں 
سہاگ رات ہے گھونگھٹ اٹھا رہا ہوں میں
سمٹ رہی ہے تو شرما کے اپنی بانہوں میں 
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کے جیسے تو مجھے چاہے گی عمر بھر یوں ہی 
کے اٹھے گی میرے طرف پیار کی نظر یوں ہی
میں جانتا ہوں تو غیر ہے مگر یوں ہی 
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے . . . !
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے (اصل نظم)
کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاوں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدر ہے
تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی
عجب نہ تھا کہ میں بے گانہء الم ہو کر
ترے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا
ترا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں
انہیں حسین فسانوں میں محو ہو رہتا
پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی
ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں
گھنیری زلفوں کے سائے میں چھپ کے جی لیتا
مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں ترا غم، تری جستجو بھی نہیں
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں
زمانے بھر کے دکھوں کو لگا چکا ہوں گلے
گزر رہا ہوں کچھ انجانی رہ گزاروں سے
مہیب سائے مری سمت بڑھتے آتے ہیں
حیات و موت کے پرہول خارزاروں میں
نہ کوئی جادہء منزل نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے خلاوں میں زندگی میری
انہی خلاوں میں رہ جاوں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں کہ مری ہم نفس مگر یونہی
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے

سب میں شامل ہو مگر سب سے جدا لگتی ہو .. ساحر لدھیانوی

ساحر لدھیانوی
سب میں شامل ہو مگر سب سے جدا لگتی ہو
صرف ہم سے نہیں خود سے بھی خفا لگتی ہو
آنکھ اٹھتی ہے نہ جھکتی ہے کسی کی خاطر 
جو کسی در پہ نہ ٹھہرے وہ ہوا لگتی ہو
زلفلہرائے تو آنچل میں چھپا لیتی ہو
ہونٹ تھرائیں تو دانتوں میں دبا لیتی ہو
جو کبھی کھل کے نہ برسے وہ گھٹا لگتی ہو
جاگی جاگی بظرآتی ہو نہ سوئی سوئی
تم کہ ہو اپنے خیالات میں کھوئی کھوئی
کسی مایوس مصور کی دعا لگتی ہو -

وہ صبح کبھی تو آئے گی .... ساحر لدھیانوی . Sahir Ludhiayanvi


وہ صبح کبھی تو آئے گی ......... ساحر لدھیانوی
ان کالی صدیوں کے سر جب رات کا آنچل ڈھلکے گا
جب دُکھ کے بادل پگھلیں گے، جب سُکھ کا ساگر جھلکے گا
جب امبر جھوم کے ناچے گا، جب دھرتی نغمہ گائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
جس صبح کی خاطر جُگ جُگ سے ہم سب مر مر کے جیتے ہیں
جس صبح کے امرت کی دُھن میں ہم زہر کے پیالے پیتے ہیں
ان بھوکی پیاسی روحوں پر اک دن تو کرم فرمائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
مانا کہ ابھی تیرے میرے ارمانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں
مٹی کا بھی ہے کچھ مول مگر انسانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں
انسانوں کی عزت جب جھوٹے سکوں میں نہ تولی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
دولت کے لیے جب عورت کی عصمت کو نہ بیچا جائے گا
چاہت کو نہ کُچلا جائے گا، عزت کو نہ بیچا جائے گا
اپنے کالے کرتوتوں پر جب یہ دنیا شرمائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
بیتیں گے کبھی تو دن آخر یہ بھوک کے اور بےکاری کے
ٹوٹیں گے کبھی تو بُت آخر دولت کی اجارہ داری کے
جب ایک انوکھی دنیا کی بنیاد اٹھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
مجبور بڑھاپا جب سُونی راہوں کی دھول نہ پھانکے گا
معصوم لڑکپن جب گندی گلیوں میں بھیک نہ مانگے گا
حق مانگنے والوں کو جس دن سُولی نہ چڑھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
فاقوں کی چتاؤں پر جس دن انسان نہ جلائے جائیں گے
سینے کے دہکتے دوزخ میں ارماں نہ جلائے جائیں گے
یہ نرک سے بھی گندی دنیا جب سورگ بنائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی

غیروں سے دادِ جور و جفا لی گئ تو کیا . افتخار عارف ۔ Iftekhar arif

غیروں سے دادِ جور و جفا لی گئ تو کیا
گھر کو جلا کے خا ک اُڑا دی گئ تو کیا

غارتِ گریِ شہر میں شامل ہے کون کون
یہ بات اہلِ شہر پر کھل بھی گئ تو کیا

اِک خواب ہی تو تھا جو فراموش ہو گیا
اِک یاد ہی تو تھی جو بھلا دی گئ تو کیا

میثاقِ اعتبارمیں تھی اِک وفا کی شرط
اِک شرط ہی تو تھی جو اُٹھا دی گئ تو کیا

قانونِ باغبانیِ صحرا کی سرنوشت
لکھی گئ تو کیا جو نہ لکھی گئ تو کیا

اس قحط و انہدامِ راویتِ کے عہد میں
تالیفِ نسخہ ہاے وفا کی گئ تو کیا

جب میر و میرزا کے سخن رائیگاں گئے
اِک بے ہنر کی بات نہ سمجھی گئ تو کیا

ہفتہ، 6 فروری، 2016

دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں ۔ فیض احمد فیض

دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں
جیسے بچھڑے ہوئے کعبے میں صنم آتے ہیں

ایک اک کر کے ہوئے جاتے ہیں تارے روشن
میری منزل کی طرف تیرے قدم آتے ہیں

رقصِ مے تیز کرو، ساز کی لے تیز کرو
سوئے مے خانہ سفیرانِ حرم آتے ہیں

کچھ ہمیں کو نہیں احسان اُٹھانے کا دماغ
وہ تو جب آتے ہیں، مائل بہ کرم آتے ہیں

اور کچھ دیر گزرے شبِ فرقت سے کہو
دل بھی کم دکھتا ہے، وہ یاد بھی کم آتے ہیں
فیض احمد فیض

تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہوگا ۔ جگر مراد آبادی

تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہوگا
صدائے ساز ہوگی اور نہ ساز بے صدا ہوگا

ہمیں‌ معلوم ہے، ہم سے سنو محشر میں‌کیا ہوگا
سب اس کو دیکھتے ہوں‌گے، وہ ہم کو دیکھتا ہوگا

سرمحشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہوگا
درِجنت نہ وا ہوگا، درِ رحمت تو وا ہوگا

جہنم ہو کہ جنت ، جو بھی ہوگا فیصلہ ہوگا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور اُن کا سامنا ہوگا

ازل ہو یا ابد دونوں اسیر زلف حضرت ہیں
جدھر نظریں‌اُٹھاؤ گے، یہی اک سلسلہ ہوگا

یہ نسبت عشق کی بے رنگ لائے رہ نہیں‌سکتی
جو محبوب خدا ہوگا، وہ محبوبِ خدا ہوگا

اسی امید پر ہم طالبان درد جیتے ہیں
خوشا دردے کہ تیرا درد، در د ِ لا دوا ہوگا

نگاہِ قہر پر بھی جان و دل سب کھوئے بیٹھا ہے
نگاہِ مہر ِ عاشق پر اگر ہوگی تو کیا ہوگا

یہ مانا بھیج دے گا ہم کو محشر سے جہنم میں
مگر جو دل پہ گذرے گی، وہ دل ہی جانتا ہوگا

سمجھتا کیا ہے تو دیوانگاہِ عشق کو زاہد؟
یہ ہو جائیں گی جس جانب، اسی جانب خدا ہوگا

جگر کا ہاتھ ہوگا حشر میں اور دامنِ حضرت
شکایت ہوگا، شکوہ جو بھی ہوگا، برملا ہوگا

جگر مرادآبادی

نظر نظر بیقرار سی ہے نفس نفس میں شرار سا ہے ۔ ساغر صدیقی

نظر نظر بیقرار سی ہے نفس نفس میں شرار سا ہے
میں جا نتا ہوں کہ تم نہ آؤگے پھر بھی کچھ انتظار سا ہے

مرے عزیزو! میرے رفیقو! چلو کوئی داستان چھیڑو
غم زمانہ کی بات چھوڑو یہ غم تو اب سازگار سا ہے

وہی فسر دہ سا رنگ محفل وہی ترا ایک عام جلوہ
مری نگاہوں میں بار سا تھا مری نگا ہوں میں بار سا ہے

کبھی تو آؤ ! کبھی تو بیٹھو! کبھی تو دیکھو! کبھی تو پوچھو
تمہاری بستی میں ہم فقیروں کا حال کیوں سوگوار سا ہے

چلو کہ جشن بہار دیکھیں چلو کہ ظرف بہار جا نچیں
چمن چمن روشنی ہوئی ہے کلی کلی پہ نکھار سا ہے

یہ زلف بر دوش کون آیا یہ کس کی آہٹ سے گل کھلے ہیں
مہک رہی ہے فضائے ہستی تمام عالم بہار سا ہے

ساغر صدیقی

اس نہیں کا کوئ علاج نہیں ۔ داغ دہلوی

اس نہیں کا کوئی علاج نہیں
روز کہتے ہیں آپ آج نہیں
کل جو تها آج وہ مزاج نہیں
اس تلوان کا کچھ علاج نہیں
کهوٹے داموں میں یہ بھی کیا ٹهرا
در ہم داغ کا رواج نہیں
دل لگی کیجئے رقیبوں سے
اس طرح کا مرا مزاج نہیں
عشق ہے بادشاہ عالم گیر
گر چہ ظاہر میں تخت و تاج نہیں
حور سے پوچھتا ہوں جنت میں
اس جگہ کیا بتوں کا راج نہیں
صبر بھی دل کو داغ دے لیں گے
ابھی کچھ اس کی احتیاج نہیں
داغ دہلوی

کچھ اس ادا سے آج وه پہلو نشیں رہے ۔ جگر مراد آبادی

کچھ اس ادا سے آج وه پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے، ہم نہیں رہے

یا رب کسی کی راز محبت کی خیر ہو
دست جنوں رہے نه رہے، آستیں رہے

درد غــم فـــراق کے یه سخت مــرحلیں
حیراں ہوں میں که پهر بهی تم اتنے حسیں رہے

جا اور کوئی ضبط کی دنیا تلاش کر
اے عشق ہم تو اب تیرے قابل نہیں رہے

الله رے چشم یار کے موجز بیانیاں
ہر ایک کا ہے گمان که مخاطب ہمیں رہے

اس عشق کے تلافی مافات دیکهنا
رونے کے حسرتیں ہیں جب آنسو نہیں رہے

ایمان و کفر اور نه دنیا و دین رہے
اے عشق شادباش که تنها ہمیں رہے

جگر مرادآبای


Kuch Is Ada Se Aaj Wo Pehlo Nasheen Rahe - Jigar moradabadi


ہجر کرتے یا کوئی وصل گزارا کرتے ۔ عبید اللہ علیم

ہجر کرتے یا کوئی وصل گزارا کرتے
ہم بہرحال بسر خواب تمھارا کرتے

ایک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم
خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارا کرتے

اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمھاری خاطر
اتنی دور آ گئے دنیا سے کنارا کرتے

محوِ آرائشِ رُخ ہے وہ قیامت سرِ بام
آنکھ اگر آئینہ ہوتی تو نظارا کرتے

ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے
کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارا کرتے

جب ہے یہ خانہ ء دل آپکی خلوت کے لئے
پھر کوئی آئے یہاں ، کیسے گوارا کرتے

کون رکھتا ہے اندھیرے میں دیا آنکھ میں خواب
تیری جانب ہی ترے لوگ اشارا کرتے

ظرفِ آئینہ کہاں اور ترا حسن کہاں
ہم ترے چہرے سے آئینہ سنوارا کرتے
عبید اللہ علیم

وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں​ ۔ عبد المجید عدم

وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں​
آدمی بے نظیر ہوتے ہیں​

تیری محفل میں بیٹھنے والے​
کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں​

پھول دامن میں چند رکھ لیجئے​
راستے میں فقیر ہوتے ہیں​

زندگی کے حسین ترکش میں​
کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں​

وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں​
سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں​

دیکھنے والا اک نہیں ملتا​
آنکھ والے کثیر ہوتے ہیں​

جن کو دولت حقیر لگتی ہے​
اُف! وہ کتنے امیر ہوتے ہیں​

جن کو قدرت نے حسن بخشا ہو​
قدرتاً کچھ شریر ہوتے ہیں​

ہے خوشی بھی عجیب شے لیکن​
غم بڑے دلپذیر ہوتے ہیں​

اے عدم احتیاط لوگوں سے​
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں​

عبدالحمید عدم​

سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا - جوش ملیح آبادی غزل

جوش ملیح آبادی

سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا

وە کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوە
جن کو تیری نگہِ لطف نے برباد کیا

دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے سونے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا

اسکا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اسکا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا

اتنا معصوم ہوں فطرت سے کلی جب چٹکی
جھک کے میں نے کہا مجھ سے کچھ ارشاد کیا ؟

میری ہر سانس ہے اس بات کی شاھد اے موت
میں نے ہر لطف کے موقعہ پہ تجھے یاد کیا

مجھکو تو ہوش نہیں تجھ کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تو نے مجھے برباد کیا

وە تجھے یاد کرے جس نے بھلایا ہو تجھے
ہم نے تجھ کو بھلایا نہ کبھی یاد کیا

کچھ نہیں اس کے سوا جوش حریفوں کا کلام
وصل نے شاد کیا ہجر نے ناشاد کیا

درد کم ہونے لگا، آؤ ــ کہ کچھ رات کٹے . ناصر کاظمی

درد کم ہونے لگا، آؤ ــ کہ کچھ رات کٹے
غم کی معیاد بڑھاؤ ــ کہ کچھ رات کٹے

ہجر میں آہ و بکا رسمِ کہن ہے لیکن
آج یہ رسم ہی دہراؤ ــ کہ کچھ رات کٹے

یوں تو تم روشنیِ قلب و نظر ہو لیکن ــــــ
آج وہ معجزہ دِکھلاؤ ــ کہ کچھ رات کٹے

دل دکھاتا ہے وہ مل کر بھی مگر آج کی رات
اسی بے درد کو لے آؤ ــ کہ کچھ رات کٹے

دم گھٹا جاتا ہے افسردہ دلی سے یارو
کوئی افواہ ہی پھیلاؤ ــ کہ کچھ رات کٹے

میں بھی بیکار ہوں ـــــ اور تم بھی ہو ویران بہت
دوســـــــتو ! آج نہ گھر جاؤ ــ کہ کچھ رات کٹے

چھوڑ آئے ہو سرِ شام اسے کیوں ناصرؔ
اُسے پھر گھر سے بلا لاؤ ــ کہ کچھ رات کٹے
ناصر کاظمی

منگل، 2 فروری، 2016

تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا ۔ مرزا غالب


تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا 
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا 
چھوڑا مہِ نخشب کی طرح دستِ قضا نے 
خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا 
توفیق بہ اندازۂ ہمت ہے ازل سے 
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا 
جب تک کہ نہ دیکھا تھا قدِ یار کا عالم 
میں معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا 
میں سادہ دل، آزردگیِ یار سے خوش ہوں 
یعنی سبقِ شوقِ مکرّر نہ ہوا تھا 
دریائے معاصی تُنک آبی سے ہوا خشک 
میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا 
جاری تھی اسدؔ! داغِ جگر سے مری تحصیل 
آ تشکدہ جاگیرِ سَمَندر نہ ہوا تھا

وہ فراق اور وہ وصال کہاں ۔ مرزا غالب




وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں​

فرصتِ کاروبارِ شوق کِسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں​

دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں​

تھی وہ اِک شخص کے تصّور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں​

ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں‌ طاقت، جگر میں حال کہاں​

ہم سے چُھوٹا قمار خانۂ عشق 
واں جو جاویں، گرہ میں مال کہاں​

فکرِ دُنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں​

مضمحل ہو گئے قویٰ غالب
وہ عناصر میں اعتدال کہاں​

اسد الله خاں غالب​

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا ​۔ مرزا غالب




یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا ​
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا​

تِرے وعدے پر جِئے ہم، تو یہ جان، جُھوٹ جانا​
کہ خوشی سے مرنہ جاتے، اگراعتبار ہوتا​

تِری نازُکی سے جانا کہ بندھا تھا عہدِ بُودا​
کبھی تو نہ توڑ سکتا، اگراستوار ہوتا​

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نِیمکش کو​
یہ خلِش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا​

یہ کہاں کی دوستی ہےکہ، بنے ہیں دوست ناصح​
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا​

رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہوکہ، پھر نہ تھمتا​
جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا​

غم اگرچہ جاں گُسل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے​
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا​

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شبِ غم بُری بلا ہے​
مجھے کیا بُرا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا​

ہوئے مرکے ہم جو رُسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا ​
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا​

اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا​
جو دوئی کی بُو بھی ہوتی توکہیں دوچار ہوتا​

یہ مسائلِ تصّوف، یہ ترا بیان، غالبؔ​
تجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا​

مرزا اسداللہ خاں غالب​